بدھ، 25 جنوری، 2017

تبسم اعظمی

" شاعرۂ  اِمرُوز "
                  طاہرہ تَبَسُّم اعظمی

خطۂ اعظم  گڑھ میں شبلی  نعمانی  کے بُوئے ہوئے تُخم ہائے گُل  و اَثمار تناور درخت بنے جن کے سائے تلے تشنگانِ علم و ادب خوب خوب سیراب ہوئے ۔ ایک نہ پنپا  تو پودا تھا یاسمین  کا ۔ وقت  گُزرتا  گیا  آبیاری  ہوتی  رہی کہ اچانک  سر زمینِ  راجہ پُور سَکرَور سے ایک کونپل نے سر نکالا اور دیکھتے ہی دیکھتے شبلی کے چمن زار میں تَبَسُّم بکھر گیا ، علاقے کے اخبارات کی پیشانی  دَمَک اُٹھی ۔ ایک  تیرہ  سالہ بچی کی بڑوں جیسی سوچ کی غزل  چھپی تو اہلِ علم نے بچی کے والد کو مُبارک باد کے پیغامات بھیجے اور باپ نے عالمِ  سر خوشی میں باندازِ تَفاخُر  اعلان کر دیا کہ میں اپنی بیٹی کا  کلام  کتابی شکل  میں شایع  کراؤں  گا ، مگر وقت کی ستم ظریفی  کہ وقت آیا جب تو خُود نہ چل بسے ۔ بیٹی کو جس انداز سے زیورِ علم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے وہ بھی نہ کر سکے ۔  دیہاتُوں میں تعلیمی سُہولتُوں کا فقدان ، بچی کو اعلٰی تعلیم کی وہ سُہُولتیں مُیسر نہ آسکیں جس کی اُسے لگن  اور باپ کو تمنا تھی ۔   صرف ایک محدود مُدت کے لئے کلکتہ کے ایک کانونٹ اسکول سے کچھ کسبِ فیض کا موقع مُیسر آیا ۔ پھر  نا گزیر حالات کے تحت گاؤں واپس آنا پڑا ۔ قریب کے قصبے میں قدرے بہتر تعلیمی سُہولتیں موجود تھیں اور باپ کی خواہش بھی تھی مگر معاشرتی پابندیاں ، رسم رواج ،  تعلیمِ نسواں کی مُخالفتیں  سدِ راہ بنیں رہیں ، خواہش پُوری نہ ہو سکی ۔ والد  بسلسلۂ کاروبار گھر سے اکثر باہر رہتے تھے مگر پھر بھی اُنھوں نے اپنے ذاتی علم و بصیرت سے اپنی بیٹی کی  علم کی پیاس بُجھانے کی حتی الوسع کوشش کی اور کچھ منازل طے کرا بھی دیں  ساتھ ہی بیٹی  اپنی خُدا داد  صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہُوتے نظم  و  نثر  میں اپنی تخلیقات مقامی  اخبارات و رسائل  کی زینت بناتی رہی ۔
 میں نے ہر وہ وسیلہ  یہ جاننے کے لئے اختیار کیا کہ خطۂ اعظم گڑھ ، جس نے ہمیں بہت سے ادیب ، شاعر ، مُبلغ  و مُصلح  دیئے ، کوئی  شاعرہ  بھی  دی ، پَر ناکامی  رہی ۔ اِسی  بُنیاد پر میں  بلا خوفِ  تردید  طاہرہ  تَبَسُّم  کو اعظم  گڑھ  کی " وَحْدھَا لَا شَرِیک لھا شَاعِرَہ " کہتا ہوں ۔ وہ  مثل  ہے نا کہ " ہونہار  بِروَا  کے چِکنے  چِکنے  پَات " اُسی کے مِصداق اب ذرا تبسُم کی ابتدائی تخلیق مُلاحظہ فرمایئے :
نہ  ہُوں  گے  یہ  بَرق  و  شجر ،  دیکھ  لینا
چلی   جُو   ہَوا    تیز    تر ،     دیکھ     لینا
نکلنا  جُو   گھر  سے ،  سنبھل   کر   نکلنا
ہر   اِک  مُوڑ  ہے   پُر   خطر ،   دیکھ   لینا
مَنَائیں      گے    اہلِ    سیاست ،     دِوالی
جلے   گا    غریبُوں    کا   گھر،  دیکھ  لینا
سَمَجھتے ہو جن کو ، ہیں آنکھوں کا کاجل
کریں    گے    وہی   آنکھ   تر ،  دیکھ  لینا
تَبَسُّم !   اگر  سَچ   کا  کچھ  حوصلہ   ہے
تَو   پہلے    ہَتھیلی   پہ   سَر ،  دیکھ  لینا

میں نے کہا ، تَبَسُّم کی فکرِ شعر گوئی مقصدیت کے طابع ہے ۔ " نکلنا جو گھر سے سنبھل کر نکلنا " آج کے دور میں کتنا سچ ہے ۔ " جلے  گا  غریبُوں کا  گھر  دیکھ  لینا ۔" کیا روز ہم یہی دیکھ  نہیں رہے ہیں ۔ کیا آنکھوں کا  کاجل  بننے  والے  ہی آنکھیں تر نہیں کر  رہے اور سچ  کہنے پر سر نہیں کٹ رہے ، تو  میں نے کیا  بیجا کہا ، بچی کی سوچ  بڑوں جیسی !
تبسُم صاحبہ اعظمی کی اِس ابتدائی کاوش کو دیکھتے ہوئے موجُودہ تخلیقات کا مُوازنہ کیجئے ، تو واضح ہوگا کہ طاہرہ ایک فکر لے کر اُٹھی ہیں ، ان کی شاعری محض  حظ  کی ، گُل و بُلبل اور عارض و گیسو کی شاعری نہیں ہے ،  مقصدیت ان کی تخلیقات کا محور  ہے ۔  ابتداء تا انتہا ،  تبسُم نے ، اب تک ، اپنے اسپِ تَخَیُّل کو ایک مَخصوص رستہ ہی پر دواں رکھا ہوا ہے اور جو " دھنک " ۔۔۔۔۔  قَوسِ قُزح ، سات رنگوں کی تخلیق پیش کی ہے ، زیرِ طباعت ہے ، آیا ہی چاہتی ہے ۔  طاہرہ کا تَبَسُّم  نام  و نَمود اور شہرت  پر نہیں ، اس  سے یہ بھاگتی ہیں اور آج  بھی اپنے کو " طفلِ مکتب "  کہتی ہیں ، اپنے کلام کی طباعت محض والد کی خواہش کی تکمیل کی خاطر کرا رہی ہیں ۔ آپ دیکھیں گے اُس میں ساتُوں رنگ ۔۔۔۔ غزل ، نظم ، رُباعیات ، قطعات ، دُوہے ، تخمیسیں ، مشاہیر کی زمینُوں میں طبع آزمائی ، سب کچھ مَوجُود ہے اور بہت سی بُھولی بسری اصناف کو  زندہ  ہی نہیں کیا ہے بلکہ  نئے نئے  مَوضُوعات پر طبع آزمائی کی ہے ۔ اپنے اِس  پہلے مجُوعہ کلام کے لئے تبسُم نے  کیا خوب  کہا ہے :
                   " اَشکبَاری  میں  جُو  پُھوٹی  ہے  تَبَسُّم  کی  کرن ،
                     تب کہیں  جا  کے ،  یہ رنگین  دھنک  اُبھری  ہے ۔"

تبسُم بُنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں ، رنگِ غزل چُوکھا  کرنا خوب  جانتی ہیں ۔ اِن  کی شاعری ، جیسا کہ کہا ، مقصدیت کی شاعری ہے ۔ ہمارے گرد و پیش پھیلی ہوئی ناہمواریاں ، ظلم و تَعَدِّی ، کُشت و خون کی ارزانی ، دہشت گردی ، بیجا رسم و رواج ، غربت و افلاس کے سائے ، جنھوں نے غریب سے جینے کا  حق  چھین لیا  ہے ، تبسُم  کے قلب  بَرمَا کر رکھ دیا ہے  اور جو کچھ وہاں سے نکلتا ہے اُسی کسک کی ترجمانی ہے ،  آنسو  ہیں اُس میں اور آہیں  بھی ۔  میرے کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تبسم کے کلام میں صرف قُنُوطیت  ہے ،  حزن و ملال ہے اور آہ و زاری  ہی ہے ۔ تَخَلُّص اِن کا ہے تبسم ، کوئی خوشگوار  منظر نظر کے سامنے  آگیا  تو  تبسُم  بھی  بکھیر  دیتی ہیں ۔ جس گرد و پیش میں ، جس ماحول میں زندگی بسر کر رہی ہیں ، علم و عمل کی راہیں اتنی کُشادہ نہیں ۔  اِس کے باوجود ، یَکَّا و تنہا ، صرف ایک مُرَبِّی و رہنما ، نام کا یکتا ، شعر و سُخن میں یکتا ،  اُستاد کی اُنگلی پکڑ کر جتنی منازل اب تک طے کی ہیں ، اور خُوب کی ہیں ، حیرت و استعجاب سے زیادہ قابلِ رشک ہیں ۔
بہت سی حسرتیں ہیں تبسم کے دل میں ۔ والد تو جلد ساتھ چُھوڑ گئے اور پھر کچھ عرصے بعد ہی  والدہ بھی چل بسیں ۔ مُونس و غمخوار علاوہ شفیق بھائی و بھاوج کے کوئی  اور نہ رہا ، ایک نونہال دلبستگی کا سامان ، آرزوؤں کا محور ہے ۔ باپ کا وہ جملہ تبسم کے کانوں میں  سدا گونجتا رہا ، " اپنی بیٹی کا کلام چھپواؤں گا ،" تو کلام کو چھپنے کے قابل بنانے کے لئے تبسم نے جی جان سے کوشش کی جتنا بھی ممکن  ہو سکا  علم  کے ساغر پئے اور سیراب ہو کر کیا کچھ اردو ادب کو نہ دیا ، اور یہ کسی طویل عرصہ کی کار کردگی بھی نہیں ۔ اِن کی شاعری کی عمر بہت  کم  ہے  مگر اِس چُھوٹی سی عمر میں اگر کہا جائے اساتذہ کی ہمسری کی ہے ، تو بیجا نہ ہوگا ، اپنی صلاحیتوں  کا  لُوہا  اہلِ  علم  سے   بلآخر  مَنوا ہی کر چُھوڑا ۔ سوچتا  ہوں  یہ سب  باپ  کی  آزوؤں ،  ماں  کی  دعاؤں ، اُستاد  کی رہنُمائی ، بھائی کی شفقتوں کا مرہونِ مِنَّت ہے یا صرف خُدا داد صلاحیتیں !
طاہرہ اور تبَسُم ( یہ دُو نہیں ،  پاکی و خوشگواری کا  مُرَکَّب ہیں )  کے بارے میں لکھنا تو بہت کچھ ہے ، مگر چُھوڑتا ہوں آپ اہلِ علم کی بصیرتوں کے لئے ، جو کسر رہ گئی ہے وہ آپ  اپنے تبصروں میں اِن کے کلام کی روشنی میں پُوری کریں گے ۔
 سراج  الادب  کے لئے  یہ ایک  اعزاز  ہے اور باعثِ  تفاخر بھی ، کہ آج  ہماری  ایک  ایڈمن  " شاعرۂ  اِمروز " ہیں ۔ کلامِ   شاعرہ  سے تو آپ  برابر مُستفیض  ہوتے  ہی رہے ہیں اور مزید پیش  ہوگا بھی ۔  میں کچھ زیادہ پیش نہ کروں گا ، بس اتنا کچھ ہی دیکھ لیجئے :

 موسمِ   درد   میں ،  زخمُوں  کا   تَپَکنا   طے   تھا
 صبر  کے  جام  کا ،  اِک  روز  چَھلکنا  طے   تھا
 کس کو  معلوم ، پسِ  پردہ جو سِسکی  ہے  نہاں
 چُوڑیُوں  کا  تو  کلائی   میں   کَھنَکنا   طے  تھا
 یاس کی کوکھ سے پُھوٹی ہے ، اُمیدوں کی کرن
 گُھپ  اندھرے میں ، ستارُوں  کا چمکنا طے  تھا
 آنکھوں آنکُھوں میں  وہ جذبات  ہوئے  ہیں  ظاہر
 جن کے اظہار میں ، ہونٹوں کا جھجکنا  طے تھا
 دل    کا   آئینہ   بھلا     کیسے    بچاتے     آخر
سنگ  کے شہر  میں ، شیشے کا  درکنا  طے تھا
گُل  کا   انجامِ    تبسم   تھا   نگاہوں   میں   مگر
پھر بھی  کلیوں  کے   مُقَدَّر  میں  چِٹکنا طے  تھا
----------------------------
ثواب
خُدا بستا ہے جس دل میں
اُسے ہرگز دُکھائیں مَت
کہ بے بس اور مظلُومُوں کے بڑھ کر پُوچھ لیں آنسُو
اور اُن کے کام ہم آئیں
جو غُربت اور خود داری کی چادر اُوڑھ کر خامُوش رہتے ہیں
کسی پر بیکسی اپنی کبھی ظاہر نہیں کرتے
مدد اُن کی کریں ایسے
کہ دائیں ہاتھ سے دیں اور بائیں کو خبر نہ ہو
بس اِس سے بڑھ کے نیکی اور کوئی ہو نہیں سکتی
بلا تفریق مخلوقِ خُدا کے کام آئیں ہم
------------------------------------
 غالب کی غزل پر تَخمِیس :
 ہم  نشیں  کوئی  نہ  ہو اور  راز  داں  کوئی   نہ  ہو
 مہرباں   کوئی   نہ  ہو  ،   نا  مہرباں   کوئی  نہ ہو
 ہو   فقط   تنہائی  اپنی ، اور   وہاں   کوئی   نہ   ہو
 " رہئے  اب ایسی  جگہ  چل کر جہاں  کوئی  نہ  ہو
   ہم  سُخن  کوئی  نہ ہو  اور  ہم  زباں  کوئی  نہ  ہو "

 کوئی    اپنا  ،  اور   نہ    کوئی  اب   پرایا    چاہئے
 کچھ  نہ  کُھویا  چاہئے اب  ،  کچھ  نہ  پایا  چاہئے
 اُٹھ   گیا   دنیا   سے   دل ،  اب   کیا   لگایا  چاہئے
 " بے   در  و  دیوار  سا    اک    گھر   بنایا   چاہئے
   کوئی   ہمسایہ نہ  ہو ،  اور پاسباں  کوئی  نہ  ہو "

 زندگی   اور  موت   کا  جب  ہے   خُدا   کو    اختیار
 ہو  تَوَکُّل  بس  اُسی   پر ، اُس  پہ  ہو  دار  و   مدار
 کیوں کریں مِنَّت کشی ، کیوں ہوں کسی  کے زیرِ بار
 " پڑئے   گر   بیمار ،   تو  کوئی   نہ  ہو  تیمار    دار
    اور اگر مر جائیئے ، تو  نوحہ خواں  کوئی  نہ  ہو ۔"
------------------------------------
 صحرا   میں  بھی  یہ  پُھول   کھلا   دیتی  ہے
 اور   خار ،   گُلستاں  میں  ،  اُگا    دیتی    ہے
 چِنگاری  بھی  پوشیدہ  ہے  اِس  میں ،  دیکھو
 چُھوٹی   سی    زباں ،   آگ    لگا    دیتی   ہے
            ______________
 ہر   بار  یہ  اُمید  کہ   ہوگا   جل  تھل
 ہر  بار  رہی  پیاس سے  دھرتی   بیکل
 ہر  بار  ہی  سحرا  نے  دعائیں  مانگیں
 ہر    بار    گُلستان    پہ    برسا   بادل
-----------------------
 بفضلِ   خُدا ،  سر  اُٹھا   کر  چلے
 نظر   آئینہ   سے   ملا   کر    چلے
 کسی  کا  بُرا   ہم   نے  چاہا  نہیں
 کسی  سے  نہ نظریں  چُراکر  چلے
         ____________
 دریا  کو  اُس کے  ظرف کی عظمت بتائے
 صحرا  کی   وسعتوں   پہ   تبسم   لُٹائے
 بڑھ  جائے ظلم حد سے تو تیشہ اُٹھائے
 فرعونیت  کے سامنے ، سر مت  جُھکائے
----------------------------
    دوہے
   مُنھ پر چِکنِی سب کہیں ،  سب جَتلَائیں  پیار
   جو  مُنھ پیچھے ساتھ دے،  وہ  ہے سَچَّا  یار
------------------------------
    نَفرت  کی دِیوار کیوں ،  کیوں آپس  میں  جنگ
    کھا  جاتا   ہے  بارہا ،  لُوہے  کو   بھی   زَنگ

طاہرہ تَبَسُّم صاحبہ اعظمی کو اب دعوت دُوں گا  کہ اپنے الفاظ میں احبابِ سراج الادب سے جو کہنا چاہیں اور اپنے کلام سے جو کچھ پیش کرنا چاہیں پیش کریں ۔ آج وہ اپنے کو اِس گروپ کا ایڈمن کم مہمان زیادہ تصور کریں ۔
 جی ، تَبسُّم  ہم  منتظر ہیں آپ کے ، تشریف لائیئے !!!

بدھ، 4 جنوری، 2017

شاعر امروز احسن کھنوی

سَیِّد اَحسَن سَجَّاد صاحب عابدی ہمارے آج کے " شاعرِ امروز " ہیں ، اِن کا تعارف یوں تو صرف اتنا ہی ہے کہ لکھنؤ  کی گُم  گشتہ  شعر و ادب  کی روایات  کے امین ہیں ، اور یہ بڑا تعارف ہے ، اِس کی صداقت کا اندازہ آپ دوستوں کو اُسی وقت ہوگا جب آپ اِن کے کلام کے نمُونے دیکھیں ، پرکھیں گے ۔ اِس دور میں شعراء تو بہت سے ہیں ، ایک سے ایک اعلٰی مگر دبستانِ لکھنؤ جو کبھی  شعر و ادب کے میدان میں اپنی مثال آپ تھا ، موصوف کا کلام پڑھ کر اُس کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔

جنابِ احسن کے والدین نے جب اِن کا نام  اَحْسَنْ رکھا ہوگا تو شاید  اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ یہ نَو نہال بڑا ہو کر اپنے احسن کلام  سے  کشتِ سُخن کی آبیاری بھی بطریقِ احسن کرے گا ۔ مَوصُوف خانوادۂ رسُول علیه الصلوٰةُ  و السلام حضرت زین العابدین کی ذُرِّیَت میں ہونے کے ناتے عابدی ہیں ۔ عابدی نام ہی کے نہیں ، دیکھا تو اب تک نہیں ، لکھنؤ میں ہی میں بھی بڑھا پَلا ، وہیں پڑھا لکھا ہے ، ماہ و سال کا اتنا تَفَاوُت ہے کہ شرفِ مُلاقات کبھی حاصل نہ ہوا ، مگر جو کچھ  اِن  کا  لکھا  پڑھتا  ہوں اُس سے اندازہ  یہی  ہوتا  ہے  کہ عابد  بھی  ہیں ۔ شائستگی ، سادگی ، اور حُسنِ خیال کا مُرَقَّع ہوتا ہے کلامِ احسن ۔  آپ کے اجداد ایران سے ہجرت کر کے بلگرام میں اپنی ریاست قائم کی اور پھر دادا مرحوم کے نوابینِ اودھ کے مُعالج حکیم ہونے کے سبب ان کے خاندان کا لکھنؤ آ بسنا ممکن ہوا ۔ احسن صاحب معروف محلہ اکبری گیٹ چوک  لکھنؤ میں دسویں اپریل کو سن ۱۹۵۱ عیسوی میں تولد ہوئے ، جبکہ اُس وقت میں لکھنؤ کرسچین کالج میں انٹر میڈیٹ کا طالب  علم تھا اور سن ۱۹۵۷ میں جبکہ ابھی شاید  یہ گھر  کے آنگن  ہی میں کھیلتے ہوں گے پاکستان چلا آیا ، تو مُلاقات  کا  کیا امکان ۔ احسن سادات کے اُس طبقے سے مُتعلُق  ہیں جو زبان و بیان میں لکھنوی تہذیب کی مثالی معروفِ زمانہ ٹکسالی زبان کہلاتی ہے ۔ ہمارے بزرگ بڑی احترام سے لکھنؤ کی سیدانیوں کو اپنے گھروں میں مہمان رکھتے تھے کہ بچے زبان ، لہجہ اور بیان سیکھ سکیں ۔ مجھے اپنے بچپن کی سیدانی جو میرے گھر اکثر ایک معزز مہمان کی حثیت سے دو دُو تین تین مہینے آکر رہا کرتی تھیں ، جنھیں ہم لکھنؤ والی خالہ کہتے تھے ۔ اُنکے طوطے کا  پنجرا اُن  کے ساتھ رہتا تھا ۔ ایکبار  یَکِّہ سے اُترتے  ہوئے  جانے  کیسے پنجرے کی کھڑکی   کھل گئی اور طوطا نکل گیا ۔ مجھے آج  تک خالہ کا وہ  جملہ یاد ہے " لُو لُو  میاں  میرا  طوطا  اُڑ گیا ۔" اب  اِس  جملہ کی  بلاغت  کو مُلاحظہ فرمایئے ۔ کس مُصیبت سے اُس طوطے کو قابُو میں کیا گیا ۔ جاڑے کی راتیں خالہ سے کہانیاں سُنتے گزرتی تھیں ۔

آحسن شاعر کیسے بنے بڑا منفرد واقعہ ہے ۔ نو برس کی عمر میں گھر پر ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لکھنؤ کے مشہور شیعہ کالج کی سٹی برانچ میں داخل ہوئے ۔ کلاس میں بیت بازی کی ٹیم کے انتخاب میں ناکامی نے احسن کو شاعر بنا دیا ۔ میں نے اِن کے مُنفرد انداز میں شاعر بننے کی بات کیا غلط کہی ۔ ناکامی کے سایہ میں پروان چڑھنے والا کامیاب شعر و سُخن کے میدان کا کوئی اور شاعر آپ کی نگاہ میں ہو تو نشاندہی کیجئے ، مزید یہ کہ تعلیم تو مُکمل کی بی ۔ کام  کی ، حساب کتاب کی ڈگری لے کر ، اور کام کیا دبستانِ لکھنؤ کی گم گشتہ تہذیب و  روایات کو جِلانے کا ۔ اَحسن صاحب نے تمام اصنافِ  سُخن  میں طبع آزمائی کی ہے ۔ بہت اعلٰی حمدیہ ، نعتیہ ، مُنقبتُوں ، سلاموں اور اہلِ بیت اطہار کی شان میں بسیُوں نظمیں مُسدسیں ، تخمیسیں ، مشاہیر کی زمینُوں میں غزلیں ،  خوبصورت نظمیں ، قطعات اور رُباعیات کا ایک ذخیرہ ہے احسن کے پاس جو بیاضوں میں محفوظ ہے مگر زیورِ  طباعت سے اب تک کیوں محروم ہے ، باعثِ  حیرت و افسوس  ہے ،  وجہ ، جو سمجھ میں آتی ہے ، وہ عابدی صاحب کاا انکسار اور نام  و نَمُود سے پرہیز ہی کہا جا سکتا  ہے ۔ احسن کی غزلیہ شاعری بھی عام  اندازِ غزل گوئی سے مُختلف ہے ۔ گُل و بلبل ، عارض و گیسو سے ہٹ کر ، معاشرتی نا ہمواریاں ، بے راہرویاں کثرت سے ، نہایت پُر اثر انداز میں بیان ہوتی ہیں ۔ ایک بات اور احسن کی غزلیہ شاعری میں قابلِ غور ہے کہ غزل روایتی انداز میں پانچ سات ہی اشعار پر مُشتمل نہیں ہوتی ، تسلسُل سے اشعار ہوتے  جاتے ہیں  اور " گڑ بڑ جھالے " والی کیفیت بھی محسوس نہیں ہوتی ، مَربُوط اور مُرَصَّع  غزل  پندرہ سُولہ اشعار تک پہنچ جاتی ہے ۔ احس  صاحب  کے  مرحوم  والدِ  گرامی  صاحبِ  دیوان  ہیں ۔ قصائد ، نعتوں ، منقبتُوں اور سلام پر مُشتمل کلامِ سید محمد سجاد عابدی  " راسِ مَغفرت " مطبوعہ ہے ۔ اس طرح  واضح  ہوا کہ  سید احسن سجاد عابدی کو  ذوقِ شعری وراثت میں ملا ۔ اپنی زندگی کا پہلا شعر جو احسن صاحب کی یاد داشت میں محفوظ ہے :
                             " خُواب ، آنکھوں میں ، مچلتے رہ گئے ،
                                اے  خُدا ! ہم   ہاتھ   ملتے    رہ  گئے ۔"
میں نے بہت سے شعراء کو پڑھا ہے ،  ماضی کے مشاہیرِ بھی اور دورِ جدید کے شعلہ بیان شاعر بھی بہت سے ، تقابُل تو ادب کے آداب کے تحت  نا مُناسب ہے ،  مگر بلا مُبالغہ اتنا کہنے میں بھی عار بھی نہیں کہ کلامِ احسن اپنے ہمعصروں میں احسن ہے ۔ میری اِس بات کو علاقائی نسبت کی جانب داری تصور نہ کیا جائے ، جو نمُونۂ کلام احسن صاحب خود اور، احباب پیش کریں گے اُس سے آپ خود ہی اندازہ کر لیجئے گا ۔ اردو کی وکالت میں جو نظم احسن نے بطریق احسن پیش کی ہے اُسی پر اکتفا کروں گا ۔ کلامِ احسن سے میں کچھ اور نہ پیش کروں گا پر  اتنا ضرور عرض کروں گا کہ جس طرح سے ایک وکیل اِستِدلال کے ساتھ اپنے مُوَکِّل کا عدالت میں مُقدمہ لڑتا ہے ، دفاع کرتا ہے ، احسن نے اپنی بی ۔ کام کی سند سے وہ کام لیا ۔  کامرس کے اُصول بھی  استدلال پر مبنی ہوتے ہیں ۔ اب تک اردو کا مُقدمہ معذرت  خواہانہ اور عاجزانہ انداز میں کیا  گیا تھا یا کسی نے اردو  کا نوحہ لکھا   " اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے " مگر اَحسن  نے جو کہا ، ذرا  توجہ  سے ملالحظہ فرمایئے ، رعب و دبدبہ ،  تاریخی حقائق کے ساتھ ، اِس سے قبل اتنی مُدَلَّل وکالت کسی نے نہ کی تھی :

فکر اب  نالہ  و شیون  کی  نہ  دَم   ساز  کی  ہے
نہ  مسیحٰی  کی  ضرورت  ہے  نہ  غَمَّاز  کی  ہے
پر  کترنے  پہ  نہ   خوش  ہو   میرے   صیاد  بہت
بازوئے   فکر  میں ،  طاقت   ابھی  پرواز  کی  ہے
نسسِ   باریکیِ   نُدرت   کی   حلاوت   کی   قسم
میری  غزلوں میں  جھلک  اک  نئے انداز  کی  ہے
لفظ  و معنی  کے دمکتے  ہوئے  موتی   مجھ  میں
نہ  مُغَنِّی  کی  ضرورت  نہ کسی  ساز  کی   ہے
دل  سے  ہے  قوسِ   قزح   رنگِ   تَغَزُّل   پہ   نثار
ہر  طرف   دُھوم   جو   شیرینیِ  انداز   کی   ہے
گلشنِ    ہند    میری    جاءِ    ولادت    ہے    سنو
بات  یہ  میرے  لئے  فخر   کی   ہے  ناز  کی   ہے
پرورش  میری   بڑے  پیار  سے  کی  تھی  تم  نے
دلکشی مجھ میں  اُسی  پیار کے  انداز  کی   ہے
مجھ  میں باقی ہیں وہ شاہانہ  تَمَدُّن   کے  نشان
یاد اب  جسکی  بہت   فخر  کی  اعزاز   کی   ہے
میں  ہوں اردو  کہ ہوں  میں  مَعدَنِ  آدابِ   سخن
کیوں  نِیَّت  مجھ  پہ  بُری   تفرقہ  پَردَاز  کی   ہے
کچھ  سیاست   کے   پرستار  میرے   پیچھے  ہیں
کیا  کہوں  کیسے  کہوں  بات  بہت  راز   کی  ہے
مجهکو   فرقون  مین   نہ  تقسم  و  مُقَیَّد   کر   لو
یہ  سیاست  تو  بس اِک   چنگلِ  شہباز  کی   ہے

میں   نہ   ہندو   نہ  مسلمان   نہ   عیسائی   ہوں
نہ  کسی  ملک  سے  بَسنے  کو   یہاں  آئی   ہوں
میں   اِسی  ملک   کی  بیٹی  ہوں   ذرا   یاد  کرو
خود    بھی   آباد  رہو   مجھکو   بھی  آباد   کرو
میں ہوں غالب  کی زبان  گر تو  ہوں  ملا  کا  دھن
میر    ہے  گرچہ   میری   روح   تو  چَکبَست   بدن
میرا    مذھب    ہے    مزاجوں    کو    مُنَوَّر    کرنا
دل  میں  اخلا ق  و   مَحَبَّت    کے   سمندر   بھرنا
مذھب و قوم  کے  چنگل  میں  پھنساؤ  نہ  مجھے
خار   تخریب   کے  ہَوِّے   سے   ڈراؤ   نہ   مجھے
ہر  مذہب ، فرقہ  و  ہر قوم  کی  منھ   بولی   ہوں
سب زبانوں کی  سہیلی ہوں ، میں  ہمجولی  ہوں
مجھکو   تفریق  کی   زنجیر  نہ    پہناؤ   حُضُور
چھوڑ   کر  مذہبی    تکرار   اِدھر   آؤ     حُضُور
اپنے    اجداد   کی   تاریخ    اٹھا    کر    دیکھو
اپنے  ماضی   سے  ذرا   ہاتھ   ملا   کر   دیکھو
اپنے خوں  میں  مجھے   تحلیل  کیا  تھا  تم   نے
اور     شہزادیِ     تخئیل   کہا    تھا    تم     نے
میں  پلی پوسی  ہوں اس  ملک  کے  گہوارے میں
پانچ  سو سال  سے چرچے  ہیں  میرے بارے میں
مجھہ میں محفوظ تھا اس ملک کا قانونی نصاب
سب ہی باشندے تھے اس ملک کے ، میرے احباب
میں  نے  سکھلائے  ہیں  آدابِ  محبّت   سب   کو
اور    بتاتی    رہی    اسرارِ    اُخُوَت   سب    کو
راج کرتی تھی دلوں پر کہ ہوں میں  شیریں زبان
ذہن و دل ہر کس و ناکس  کے ہی ہیں میرے مکان
آؤ   پھر مل  کے دیئے  اُنس و مَحَبَّت  کے  جلائیں
پھر  وہی   پرچمِ   آزادی ،  رِفَاقَت   سے  اٹھائیں
پھر  اُخوت   کے  دیئے سب  کے دُوارے  دَھر  دیں
آؤ  کہ  دل  میں  پھر اَخلاق  کے  مُوتی  بَھر  دین
پھر  چلے  ملک  کے  آنگن   میں  وہ  ہی   پُروائی
پھر   رہیں   پیار  و  محبت  سے  میرے   شَیدائی
میں  نہ   ہِندُو   نہ   مسلمان   نہ  عیسائی   ہوں
نہ  کسی  ملک  سے  بسنے کو  یہاں   آئی   ہوں
میں      اردو       ہوں ،    میں      اردو        ہوں

اتوار، 1 جنوری، 2017

سالِ نو کا ماہِ جہاں تاب

ہے سالِ نو کا ماہِ جہاں تاب جنوری
آتا ہے ساتھ لے کے نئے خواب جنوری

روشن کتاب زیست کا ہو باب جنوری
ہر گز کرے کسی کو نہ بیتاب جنوری

کرتا ہے اہلِ شوق کے سینوں میں موجزن
جذبات اور امنگ کا سیلاب جنوری

ان کے لیے سمجھتے ہیں جو اس کو فال نیک
ہو جیسے ایک ماہیِ بے آب جنوری


کچھ لوگ اس کا کرتے ہیں اس طرح انتظار
ہو جیسے کوئی تحفہ نایاب جنوری


سالِ جدید سب کے لیے ہو یہ سازگار
برقی کے سازِ دل کی ہے مظراب جنوری

احمد علی برقی اعظمی

منگل، 13 دسمبر، 2016

سفیدے کے دو درخت



پودے اور درخت جاندار ہوتے ہیں بڑھتے ہیں،پھلتے پھولتے اور پھیلتے ہیں ۔ رنگ بدلتے ہیں موسم کی تبدیلیوں کا اثر لیتے ہیں کبھی ہرے بھرے ،سرسبز و شاداب اور کبھی ٹنڈ منڈ دِکھتے ہیں ۔ آ کسیجن خارج کرتے ہیں خود بھی سانس لیتے ہیں اور ہماری سانسیں بھی صاف ستھری کر دیتے ہیں حتیٰ کہ سنتے بھی ہیں بس بول نہیں سکتے ۔ کسی زمانے میں جب ہم بچے تھے تو اماں جان یا بابا جان یہ بات کہتے تھے مگر ہمیں یقین نہیں ہوتا تھا ہم تو بس حرکت کرنے والوں کو ہی جاندار سمجھتے ۔
پودوں سے پیار اس زمانے میں شروع ہوا جب مستنصر حسین تارڑ نئے نئے چاچا جی بنے تھے ۔ ہم میں سے بہتوں کو یاد ہوگا جب صبح کی نشریات شروع ہوئیں تھیں آ ج کے سارے قارئین اسوقت اسکولوں میں طالبِعلم ہوں گے ۔ کچھ چھوٹے درجوں میں اور کچھ بڑے درجوں میں ۔ مگر چاچا جی کا اسٹائل اور انداز سب ہی کو بہت بھاتا تھا جب وہ عین اسکول کے لئیے نکلنے سے پہلے سب کو کارٹونز دکھاتے تھے دو ڈھائی منٹ کے ۔ ان دو ڈھائی منٹ کے کارٹونز کے لئیے اسکول کے لئیے تیار ہوتے بچےچاچا جی کی گھنٹہ بھر پہلے کی بے سروپا باتیں برداشت کئے جاتے اور وہ ساری بے سروپا باتیں آ ج تک پاسبانِ عقل بن کے زندگی میں بہت کام آ ئیں ۔ کارٹون تو کب کے پتہ نہیں کہاں اڑن چھو ہو گئےبلکہ بعد میں بہت اچھے کارٹونز اور سیریز، سیریلز اور اینی میٹڈ موویز تک ترقی پا گئے مگر ان جیسی میٹھی اور کام کی بے سروپا باتیں دوبارہ سننے کو نہیں ملیں یا شاید ہم نے توجہ نہیں دی ۔
پودوں سے پہلا لگاؤ چاچا جی کے توسط سے ہی ممکن ہوا ۔ ایسے ہی کسی روز کارٹونز کے انتظار میں انکی باتیں زبردستی کانوں میں ڈال رہے تھے جنکا لبِ لباب یہ تھا کہ پھولوں اور پودوں کے بھی کان ہوتے ہیں محسوسات ہوتے ہیں اگر آ پ پودوں کے پاس چند گھڑیاں بیٹھ کر ان سے باتیں کریں  ان کو سہلائیں ہاتھوں سے چھوئیں،انکے ساتھ محبت بھری باتیں کریں اور اس دوران ان کے ہلکے سڑے، خراب ہوتے پتّے اتار دیں تو پودہ بہت خوبصورت ہو جائے گابنسبت اسکے جسے پیار اور توجہ سے محروم رکھا گیا ہو ۔ عقل کے کسی خانے میں یہ بات فٹ ہو کے نا دی ۔ اگرچہ سائنس اور بائیو سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا مگر تجربہ کرنے کی ٹھان لی اتفاق سے کچھ روز بعد سڑک پر ریڑھی والا پودے بیچتے ہوئے گزرا تو ضد کر کے گلاب کے دو پودے گملوں سمیت لے لئے اور انکی خاطر داری شروع کر دی نسبتا دور دور  رکھ دیا کہ ایک سے کی گئی پیار بھری سرگوشیاں دوسرا نا سن پائے ایک کو تو اپنے پیار اور محبت سے خوب توجہ دی اور دوسرے کو یکسر محروم رکھا پانی کا خیال اگرچہ برابر ہی رکھا چائے کی ساری پتی اماں جان بڑے انصاف سے آ دھی آدھی تقسیم کر کے ڈالتیں انکے خیال میں چائے کی پتی گلاب کے لیئے بہت اچھی خوراک ہوتی ہے  ۔ چند ہی دنوں میں پودوں پر کلیاں آ گئیں اور گلاب بن کر بہار دکھانے لگیں اور واقعی حیران کن حد تک جس پودے نے پیار بھری سرگوشیاں اور گیت سنے تھے اسکے بڑے بڑے  تر و تازہ گلاب  مستی میں جھومتے رہتے اور دوسرے پودے کے گلاب سستی اور کسلمندی سے پڑے رہتے ۔ یہاں تک تو چاچا جی کی بات کے ہم قائل ہو گئے اس دوران گھر کے ٹیرس پر ایک دو پودوں کا مزید اضافہ ہو گیا ۔ ان میں ایک منی پلانٹ اور دوسرا ربر پلانٹ تھا اب میری ساری توجہ ان پر ہو گئی گیلے فوم سے ایک ایک پتہ روز چمکاتی اور دًھول مٹی صاف کرتی چند ہفتوں تک منی پلانٹ اتنا پھیل گیا کہ ہر کسی کی نظروں میں آ نے لگا ۔ ٹیرس سے گِرل ، گرل سے جنگلہ اور جنگلے سے سیڑھیوں کا سفر بڑی سرعت سے طے کیااور پورے گھر میں اس بیل کی بہار چھائی رہتی میں ایک دفعہ پھر چاچا جی کی قائل ہو گئی ۔ شادی ہو گئی دیس چھوٹا تو بھیس بھی بدل گیا ذمہ داریاں یکسر بدل گئیں گلاب، منی پلانٹ اور ربر پلانٹ سب پیچھے رہ گئے( اس وقت  پودوں کے بارے میں میری دنیا اور معلومات ان تین پودوں تک ہی محدود تھیں ) بہن سے بات ہوتی گپ شپ کے دوران خیال آ نے پر  بے خیالی کی سی کیفیت میں  اپنے پودوں کا پوچھ لیتی جو میری شادی کے بعد میرے سارے خزانوں کی مالک بھی تھی اور امین بھی ۔ انکے ہرے بھرے ہونے کا سن کر  خوش ہو جاتی  ۔
اتفاق سے میاں جی کی پوسٹنگ دور دراز علاقے میں ہو گئی ارد گرد کا کھلا رقبہ اور اندر بڑے لان میں گنجائش نے پھر سے پودوں کی طرف دھیان کروایا اور بس جنون ہی چڑھ گیا کہ صحن میں،پورچ میں کیاریوں میں، لان میں پودے ہونے چاہئیں وہ سب کس طرح انتظام میں وہ الگ داستان ہے کبھی تذکرہ رہے گا ۔
پودوں میں کتنی طاقت ہوتی ہے یہ اب صحیح معنوں میں آ شکار ہوا ۔ کیوں کہ میرے گھر کے باہر روڈ کراس کر کے سفیدے کے دو بڑے درختوں نے ( اکثر احباب ان سے شناسا ہیں اور متعدد بار دیکھ چکے ہیں )  میری زندگی ہی بدل دی ۔ میرے اندر باہر کے سارے موسم اور اثرات ان سے منسوب ہیں ۔ دیکھنے میں چپ چاپ بت بنے مانندِ چوکیدار اپنی جگہ پر ایستادہ ہیں مگر کیا کراماتی درخت ہیں مجھے کچھ عرصہ سے لگتا ہے کہ ان درختوں کا کچھ قرض ہے میرے اوپر جو آ گے واضح ہو جائے گا ۔  اب جب کہ ان کو چھوڑ کر جانا پڑ رہا ہے تو وہ سارے محسوسات امڈ امڈ کر آ رہے ہیں  جو انکو دیکھتے ہوئے طاری رہے ۔ کتنے ہی مسافر انکی چھاؤں میں سفر کرتے اپنی منزلوں کو پہنچتے ہیں۔ بہت سے راہگیر چلتے چلتے رک کر جوتوں کے کھل جانے والے تسمے باندھتے ہیں کچھ سائیکل سوار ، پیدل اور بائیک والے اچانک آ جانے والی فون کالز اس کی چھاؤں میں کھڑے ہو کر سنتے ہیں پتہ نہیں کتنے رازوں کے امین ہیں  کوئی دم بھر سستانے کو کھڑا ہوا  پچھلی لائن سے آ تی محترمہ استانی صاحبہ گزرتے ہوئے اکثر شانے کا بیگ لمحہ بھر یہیں رک کر  دوسرے شانے پر منتقل کرتی ہیں۔ ہاسپٹل کی ہیڈ نرس یہیں سے پوائنٹ پکڑتی ہیں اور برابر والے کرنل صاحب کا سویئپر ہمیشہ اسی کے ساۓ کوڑے کی ٹوکری الٹ دیتا ہے اور ان کابیٹ مین دوسرے درخت کی چھاؤں کے نیچے ہی نمازِ ظہر ادا کرنا پسند کرتا ہے۔
اونچائی اتنی ہے کہ ہلکی سی ہوا میں بھی جھومنے لگتے اور آ پس میں میٹھی سرگوشیاں کرتے ہیں اور انکی ہلکے سُروں میں کی گئی جذباتی سرگوشیاں مجھ تک پہنچ جاتی ہیں ۔ انکو جھومتا ہوا دیکھنا مجھے اتنا پسند ہے کہ آ ندھیوں کے موسم میں خواتین کو گھریلو چیزیں اڑنے کے ڈر سے سنبھالنے کا خیال ہوتا ہے جبکہ میرے ہاتھ میں صرف کیمرا ۔ اتنی موویز بنا چکی ہوں کہ حد نہیں اور اتنی تصویریں لے چکی ہوں کہ فون گیلری میں بس یہی ہوتی ہیں مگر دل ہے کہ بھرتا نہیں۔ ہوا ذرا تیز ہو تو  انکی سر گوشیاں مزید سریلی ہو جاتی ہیں اور ترنگ سنبھالے نہیں سنبھلتی بلکہ ہلکی شرارتیں سرکشی کا روپ دھار لیتی ہیں ایسے ڈولتے پھرتے ہیں کہ سانس رک جاتی ہے ابھی زمین بوس ہو جائیں گے مگر ہواؤں کا شور تھمنے کے بعد ایسے ساکت اور گُپ جیسے بالکل معصوم ہوں یا پھر تھک کر سستا رہے ہوں خاموشی سے ۔ مگر انکی سرمستی اور جھوم جھام میرے اندر بھی ایک سر خوشی اور ترنگ بھر دیتی ہے اکثر سوچتی ہوں کہ نا جانے آ پس میں کیا راز و نیاز کرتے ہوں گے ان ہی سرگوشیوں نے چند نظمیں اُگلوا لیں کچھ غزلیں کہلوا لیں ۔
موسم کی تغیر پذیری کے باعث اگر خاموش ہوں تو لگتا ہے کہ آ پس میں ناراض ہیں اتنے فاصلے پہ کھڑے نظر آتے ہیں کہ دور کا واسطہ بھی نہیں دِکھتا اور جب موسم ہی کی کسی شرارت کے باعث جھومنے لگتے ہیں جوش سے ٹکرا ٹکرا کرملتے ہیں تو پوری فضا میں رنگ ہی رنگ بھر جاتے ہیں انکی شاں شاں کی آ واز مجھے بہت مرغوب ہے مگر اندر کہیں ایک سہم بھی ہوتا ہے کہ ٹوٹ کر گر نا جائیں
اب تو مجھے شک پڑتا ہے کہ ان کو بھی مجھ سے ویسی ہی محبت ہے جیسی کہ مجھے ۔ بہت دنوں سے خاموش کھڑے ہیں میں اکثر چاۓ یا کافی انکے نیچے گِرے بے تحاشہ سوکھے پتوں پر کھڑے ہو کر پینا پسند کرتی ہوں نیچے کی زمین اکثر ٹریکٹر چلنے کی وجہ سے نرم سی رہتی ہے نرم زمین پر پتوں کی چرڑ مرڑ عجیب سی کیفیت طاری کر دیتی ہے اکثر راہ گیر سمجھتے ہیں بی بی پاگل ہے مگر کیا کیجیے کہ پاگلوں کے سر پر سینگ نہیں ہوتے ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جنوری کی کہرائی، دھندلائی  ٹھنڈ میں ٹھٹھرتے ،چپ چاپ محسوس ہوتے ہیں۔ جھڑے ، اکڑے ،نم آ لود  پتے کسی ہجر کے زیر اثر باقاعدہ  آ نسو ٹپ ٹپا رہے ہوتے ہیں ۔ فروری میں انکی اداسی کچھ کم ہوجاتی ہے کبھی ٹھنڈے کبھی گرم ۔ دھندلی شاموں میں لپٹے اداس گم سم ، صبح تک اسی کیفیت مبتلا دکھتے ہیں دوپہر تک خود ساختہ اداسی کو بھول کر نارمل اور معمول کے مطابق دکھائی دیتے رہتے ہیں مگر شام پھر عذاب جاں ہوئی جاتی ہے
مارچ میں رنگ ہی رنگ بھر جاتے ہیں ان پہ ۔ ارد گرد کی رنگین فضا، ڈھیروں خود رو جنگلی سورج  مکھیاں  ،اور ہمہ قسم پھولوں سے پوری کالونی ڈھک جاتی ہے تو ان کا مزاج بھی الہڑ دوشیزہ جیسا لاپرواہ ہو جاتا ہے ۔ ارد گرد سے ایسے ایسے رنگین اور خوبصورت طائر آ ن بسیرا کرتے ہیں ۔ لال ہرے نیلے پیلے چتکبرے ، موٹے موٹے جنگلی کبوتر اور درختوں کی سب سے اونچی پھننگ پہ کوؤں کی جوڑی جب اٹھکیلیاں کرتی ہے  تو اس منظر پر دنیا کی ساری دولت اور مصروفیت قربان کی جا سکتی ہے ۔ اگر قطری شہزادے دیکھ لیں تو شاید ان ہی پرندوں کے شکار پہ اصرار کیا کریں ۔ یوکلپٹس کی یہ ساری تام جھام ،رونق میلہ اور خوبصورتی اپریل میں بھی  مارچ ہی کی طرح رہتی ہے ۔
میرے خیال کی وسعت مجھے ان درختوں کی اونچائی سے بھی اوپر لے جاتی ہے جہاں پریاں بسیرا کرتی ہیں بلا شبہ میرے تخیل  نے بہت دفعہ مجھے  ان پریوں کے پروں کی سرسراہٹ  سنائی ہے اور گلابی نازک پیراہن بھی دکھائے ہیں۔
مئی میں انکو دیکھنا الگ اور انوکھا تجربہ ہے جھڑے جھڑائے پتّے ، ٹریکٹر چلنے کے بعد گُودی ہوئی زمین میں مدغم ہو جاتے ہیں ۔صاف ستھرا نرم قطعہ مانندِ ایرانی قالین  محسوس ہوتا ہے  چلنے سے پاؤں چار چار انچ تک دھنسے جاتے ہیں ہیں نئے پتے بڑی شان  اور مضبوطی سے شاخوں کا احاطہ کئے ہوتے ہیں ٹھنڈی صبح ان کے جَلو میں بڑا حسین تاثر دے رہی ہوتی ہے مشرق کی طرف طلوعِ آ فتاب کا منظر اور درختوں کا سانس روک کر ابھرتے سورج کو خوش آ مدید کہنا اور اسکے چِھدرے پتّوں سے ہلکی نرم دھوپ کا اخراج ، کیا منظر ہوتا ہے سبحان اللہ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور چاندنی راتوں کی داستان تو نا ہی پوچھیئے جب چودھویں کا پورا چاند کلابتو بناان دنوں کے بیچ پوری تاب  سے چمک رہا ہو تو دل بے اختیار اس منظر میں رچ جانے کو چاہنے لگتا ہے اور اس نظارے کی قیمت کسی دولت سے چکائی نہیں جا سکتی دنیا کی ہر خوبصورتی ہیچ ہے یہاں ۔ ذرا تصّور میں لائیے اونچے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خاموش درخت، گول روپہلا آ لودگی سے پاک انتہائی چمکدار چاند، ہلکی سرسراتی ہوا اور ارد گرد کی مکمل خاموشی  اور ایسی خاموشی کہ پتھر بھی بول پڑیں ۔ اگرچہ یہ چاندنی راتیں ہر مہینے ہی نظارے کرواتی ہیں مگر ہر بار انکو دیکھنا نئی خوشی اور الوہی جذبے عطا کرتا ہے ۔ ابھی جس خیال سے آ پ گزرے میری خوش قسمتی کہ میں حقیقت میں اسے دیکھتی ہوں اور خیالوں میں پہنچ جاتی ہوں یہ خوبصورتی صرف لاہوت کی ہی مرہونِ منّت ہے
جون میں موسم کی شِدت اپنے عروج پر ہوتی ہے اور چرند پرند سائے کی تلاش میں ۔ وہ طائرِ خوش الحان جو مارچ،اپریل میں اپنی سریلی ، میٹھی بولیاں بول کر دل موہتے ہیں اور رنگین پر جھاڑ کر انکو بھی رنگینی عطا کرتے ہیں ، دور دیسوں کے مسافر ہوجاتے ہیں اور مقامی پرندے بشمول کوّے چڑیاں طوطے مینائیں اور لالڑیاں اوپری پھنّنگوں پر ڈولتے رہتے ہیں۔
جولائی اگست کی برساتوں میں جب بادل گِھر گِھر آ تے اور چھاجوں مینہ برساتے ہیں  یہ الگ ہی ڈھب سے شور اٹھاتے ہیں تب رنگ بھرے بادلوں کی جلترنگ اور یوکلپٹس کی سازشیں اتنی رازداری سے جاری رہتی ہیں اور پورے ماحول کو گرفتار رکھتی ہیں ۔ بھیگتے ، سرسراتے ، لہراتے ، پسِ منظر میں دھلے دھلائے،ابر آ لود سرمئی ،گِھرتے امڈتے بادل اور پیش منظر میں ہرے کچور اونچے لمبے سفیدچمکتے گول سڈول تنوں کے ساتھ ، نیچے بے تحاشہ گِرے گیلے پتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اللہ اللہ۔
ستمبر بھی ایسی ہی ملی جلی کیفیت میں رہتا ہے دو مہینوں کی مسلسل بارشوں نےجو نمی انکی شاخوں ، تنوں اور زمین  کو عطا کی تھی اس بوجھ سے بوجھل اور نم نم نظر آ تے ہیں ۔ میری کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں ہوتی ۔ اکتوبر میں اداس اداس دِکھنے لگتے ہیں جیسے گوری کا ساجن بچھڑ گیا ہو اور وہ امید و آ س چھوڑ بیٹھی ہو ۔ اسی گوری کے غم میں برابر کے شریک نِراسے ، کھوئے ہوئے دِکھتے ہیں پچھلے سارے موسموں کا چلبلا پن کہیں کھو جاتا ہے ۔ اخیری اکتوبر کی چلتی ٹھنڈی ہوا میں چپ چاپ پتّے جھاڑے جاتے ہیں جن کو گزرتے مسافر اپنے بھاری بوٹوں تلے روندتے گزرتے ہیں تب انکی چُرڑ مُرڑ مجھے گھر کے اندر تک سنائی دیتی ہے۔
گھر میں بلا مبالغہ سو طرح کے درخت لگے ہیں جن کو میں نے بڑی مشکل سے اور بعض کو دور دراز علاقوں سے منگوا کر اپنے چھوٹے سے باغیچے کی شان بنایا ہے بعض میرے مخلص اور عزیز دوستوں کی مہربانی سے مجھ تک پہنچے ہیں کچھ میں نے بے شرمی کی حد تک جاکر منہ پھاڑ کر مانگ کر اکٹھے کئے ہیں اپنے ہاتھوں سے لگائے ہیں بے تحاشہ پھل اور پھول وصول کیۓ ہیں ایک ایک پتے کو اپنی نظروں میں بڑھایا ہے۔ مگر جو پیار اور محبت پچھلے سات سالوں میں مجھے ان سے ہوئی ہے وہ کسی درخت یا پودے سے نہیں ہو سکی ۔ اگرچہ مجھے اُن سے کوئی پھل پھول یا براہِ راست سایہ بھی میّسر نہیں ۔ مگر انہوں نے اپنی محبت کا جو بیج اور بے اختیاری میرے اندر بھر دی ہے وہ بہت بھاری ہے میری آ ج کی قوتِ گویائی انہی کی عطا کردہ ہے ۔
اور اب سامنے  بے مہر دسمبر ہے یا شاید دسمبر کی ہوائیں ہی بڑی بے وفا ہیں کہ وہ پچھلی لائن کی استانی صاحبہ بڑی بے اعتنائی سے سڑک کے دوسری پار چلنا شروع کر دیتی ہیں اور شولڈر بیگ کا شانہ بدلنا بھول جاتی ہیں کرنل صاحب کا سوئیپر ایک منٹ بھی اسکے قریب نہیں جاتا اور ذرا پرلی طرف کھلی دھوپ میں لگے ڈرم میں کوڑا الٹتا ہے اور بیٹ مین بھی گیٹ کے سامنے والے لان میں ڈیرے ڈال لیتا ہے البتہ ہیڈ نرس کو اپنا پوائنٹ اسی سائیڈ سے پکڑنا ہوتا ہے ۔ مجھے سفیدے کی جوڑی کی کُرلاہٹیں صاف سنائی دیتی ہیں انکے بین ، انکے آ نسو ، مگر مجھے ان کو چھوڑنا پڑا انکو چھوڑنے کی بڑی اداسی ہے بہت دکھ ہے مگر خوش آ ئیند بات یہ کہ میرے  نئے گھر کے آ گے بھی ویسے ہی سفیدے کے دو درخت موجود ہیں جو محکمہ کی ' درخت اُگاؤ ' پالیسی کے تحت وجود میں آ ئے آ پ بتائیں کیا میں ان سے ویسی ہی محبت کر سکوں گی ؟


زارا مظہر
چشمہ
١٣ دسمبر

جمعہ، 9 دسمبر، 2016

ٹوٹی پھوٹی عورت


وہ اپنی حلقہ احباب میں آ ئرن لیڈی کے نام سے جانی جاتی تھی خوش حالی اور آ سودگی چہرے اور عادات سے ظاہر ہوتی تھی بہت خوب صورت نہیں تھی مگر فراغت نے چہرے پر بارعب سی ملاحت،طمانیت اور لاپرواہی گھول دی تھی۔
لائق فائق ،خوبصورت بچے،چاہنے والا ویل سیٹلڈ شوہر ،سجا سجایا گھر ایک عورت کو اور کیا چاہیے۔دیکھنے والےدیکھتے ہر گزرتا دن اسکو ایک مسحور کن تابانی بخش رہا تھا ہر روز ایک دن چھوٹی ہو جاتی خوش مزاجی انگ انگ سے پھوٹتی اپنی دنیا میں مست، ملنگ اکثر لوگ سمجھتے مغرور ہے مگر وہ تو احساسِ طمانیت تھا جو اسے یہ سارے الوہی رنگ عطا کر گیا تھا ورنہ جو بھی اسکو ملتا اسکا گرویدہ ہو جاتا صاف ستھری گفتگو میں ادبی شستگی گھلی ہوتی جو اسکے وسیع مطالعے اور با ذوق ہونے کا اعلان کرتی ۔
         جازبِ نظر تو پہلے ہی دِکھتی تھی اب دمکنے لگی موتیوں کی طرح تاباں ،ستاروں کی طرح ضو فشاں تلّے کی تار ہی بن گئی بات بے بات قہقہے ابلتے سہیلیاں جل جاتیں یار کیا کھانے لگی ہو چوری چوری کوئ ڈائٹ پلان فالو کر رہی ہو ضرور یوگا شروع کر دی ہے نہیں نہیں جم جاتی ہے دوسری وثوق سے سر ہلاتی
ہماری آ نکھوں میں کچھ مہکے ہوۓ سے راز ہیں
ہم سے بھی خوبصورت ہمارے انداز ہیں ۔ ۔ ۔ ۔۔
وہ قلقل کر کے ہنس پڑتی آنکھوں میں مستیاں، گہرائیاں ہلکورے لیتیں چہرے پر شادابیاں سنہری سی گلابیاں گھل گئیں ہر وقت دوڑتی بھاگتی ابھی مالی کے ساتھ پائنچے اڑسے دستانے چڑھائے کھرپا پکڑے اسے گوڈی کا ڈھنگ بتا رہی ہے پھول پتوں سی الجھ رہی ہے ابھی ارے ابھی تو ملازمہ کے ساتھ کونا کونا چمکا رہی تھی پورا گھر باغیچے کے تازہ پھولوں سے سجا دیتی  گھنٹہ بھر میں ٹرے اٹھائے پکوان سجائے اڑوس پڑوس کو کھانے کھلا کر داد سمیٹ رہی ہوتی میاں کے آ نے سے پہلے نہا دھو  سج سنور کر استقبال کو تیار رات کو کتابیں ساتھی ہوتیں کبھی لکھ لیتی کبھی پڑھ لیتی لگتا چوبیس گھنٹوں میں سے چالیس کشید رہی ہے
مگر پتہ نہیں کیا ہوا چپ چپ رہنے لگی ۔کپڑے ملگجے نہانے کا خیال ہی نا رہتا کسلمندی سے اٹھنا ہی محال لگتا مانو کوئی آ سیب چمٹ گیا ہو دنوں میں نچڑ گئ ہمدرد کہتے نظر لگ گئ بچے پریشان گھر والا حیران ، خالہ بی ہول کر سوچتیں ضرور کوئی بڑی بیماری لگ گئ ہے  ۔آ خر ہمارا بھی تجربہ ہے اریب قریب کی سکھیاں پریشان یار بتا تو ہوا کیا ہے  چاہنے والا شوہر پرشان ہو کر سارے ٹیسٹ کروا لایا  مگر بیماری ہوتی تو آ تی وہ تو روگ تھا وہ کب کسی ٹیسٹ میں آ تا ہے بے تکلف دوست مذاقاً بولی کہیں عشق کی بلا تو تیرے پیچھے نہیں پڑ گئ اور اسکا دل اچھل کر حلق میں آ گیا  نہیں نہیں مجھے خود کو سنبھالنا ہو گا مب ہی من میں عہد کیا خود کو سنبھال لوں گی ایک اور عہد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ بسی بسائ گھرستی اجڑ جاۓ گی بچے بگڑ جائیں گے سہیلیوں کی بات ان کے جاتے ہی سمیٹ دی
اپنے اندر کی ٹوٹی پھوٹی عورت کو ڈانٹا، ڈپٹا، دلاسہ بھی دیا اور اسکے ساتھ مل کر خوب روئ ۔۔۔۔۔۔۔۔رو لے رو لے آ ج دل بھر کر رو لے خود بھی اور اسکو بھی پھر فاتیحہ پڑھ چھوڑیں صبر کر لئیں (دل نے پھر دہائ دی )
اندر کی ضدی عورت بولی کیسے سنبھالوں خود کو کتنی نفیس تھی کتنی شائستہ تھی چار چھ ہر وقت التفات کے منتظر رہتے تھے مگر وہ گھاس نا ڈالتی  پھر اب ۔۔۔۔۔۔اب کیوں اسکے دام میں آ گئ حواسوں پہ سوار کر لیا کبھی اسے شوہر پر ترس آ تا جو اسکے آ رام کے لئیے اپنے ذاتی آ رام کو خاطر میں نا لاتا وہ تو واقعی آ سیب تھا کسی لمحے دماغ سے اسکا خیال محو نا ہوتا شوہر کے ساتھ انتہائی قربت کے لمحوں میں بھی تنہا نا چھوڑتا شوہر اسکی نا آ مادگی پا کر پیچھے ہٹ جاتا وہ اپنی ہی نظروں میں مجرم بن جاتی  کاش منّے تم میری زندگی میں نا آ تے میں کتنی مگن تھی سبک خرام ندی کی مانند وہ بے ربط ہو کر سوچتی کوئ کوئ چخ چخ ہی نہیں تھی روپ بدلتے چہرے کو آ ئینے میں دیکھتے ہوۓ بُدبُداتی دین دنیا کتنے اچھے چل رہے تھے سوچتی پتہ نہیں کیسے درّانا وار گھستا چلا آ یا
آ ندھی تھا اڑاتا چلا گیا
طوفان تھا چھاتا چلا گیا
سیلاب تھا بہاتا چلا گیا
بین کرتی آ نکھوں کے نوحے سنتی تو اپنے اجڑنے کا غم مارے ڈالتا پچھتاوے ڈستے میں ایک پختہ عمر عورت کوئ شرمیلی دوشیزہ تو نا تھی  جو پھسل گئ کیا شیطان تھا جو دین و عاقبت خراب کر گیا نہیں  وہ تو دلبر تھا دل اسکے خلاف ایک حرف نا سوچتا ۔تھک کر خود ہی خود کو بے قصور قرار دینے بیٹھ جاتی می کب اسکی باتوں میں آ تی تھی عمر میں چھوٹا تھا اکثر منّا کہہ دیتی  میرا چھوٹا بھائی تمہارا ہم عمر ہے ہم اسے پیار سے منّا کہتے ہیں ٹھیک ہے مجھے بھی کہہ لو مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔پیار سے وہ شوخ ہوتا کہتا میں چھ فٹ کا آ دمی تمہارے منّا کہنے پر تنہائی میں اکیلا ہی ہنس پڑتا ہوں وہ کہتی مجھے تم نا کہا کرو میں تم سے بڑی ہوں تو حلق پھاڑ کے بڑی ڈھٹائ سے ہنس دیتا کیا فرق پڑتا ہے بس تم کہنا اچھا لگتا ہے چھلاوہ ہی تھا لمحے لمحے کی رپورٹ لکھتا ابھی ادھر گیا تھا آ ج گھر میں مستری لگایا ہے اب بجلی کا کام کروا رہا ہوں اب گاؤں سے کچھ برادری والے آ ے بیٹھے ہیں بچوں کو اسکول چھوڑنے گیا تھا دوست آ یا ہوا ہے یونی فیلو چاۓ کا کپ اسکو بھی ارسال کردیتا بیوی بچوں کے ساتھ میکے گئ ہے آ ج یہ کرتا لایا ہو نیلے رنگ کا دیکھو کیسا ہے عید پہ پہنوں گا پزا ہٹ پہ ہوں فیملی کے ساتھ  دوستوں کے ساتھ لنچ کیا کے ۔ایف ۔سی میں تصویر ارسال کر دیتا آج بیوی نے لنچ بنا کر دیا دیکھو  آ ج دیر ہو گئی صبح اب لنچ میں کیلے کھاؤں گا تم بھی آ جاؤ شرارت سے ہنستا آ ج والدہ کو لے کر ڈاکٹر کے پاس جانا ہے چھوٹی سے چھوٹی بات شیئر کرتا شائد اپنا عادی بنا رہا تھا وہ سر دھنتی متاثر ہوتی رہتی کتنا فرمابردار ہے کئیرنگ ہے لونگ ہے  دل تھوڑا تھوڑا بے ایمان ہونا شروع ہو گیا وہ خود کو دلاسہ دیتی نہیں یہ تو بس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔۔ ۔ ۔اچھا شاید بوائے فرینڈ اسکو کہتے ہیں ورنہ دونوں کی زندگی بڑی سیٹ ایک دھارے پر چل رہی تھی کہیں کمی نہ تھی نا ہی بیشی کی گنجائش
مگر وہ کسی اور ہی دھن میں تھا آ فس پہنچتے ہی اسے بھی انگیج کر لیتا
وہ محبتوں اور توجہ کے بوجھ سے دبی دبی رہنے لگی مگر عقل ابھی پلِ صراط پہ کھڑی تھی جنت دوزخ صاف نظر آ رہی تھیں وہ معنی خیز شعر ارسال کرتا وہ چاہے جانے کے احساس سے بہک گئ شعروں سے بڑھ کر پورے پورے گانے بھیج دیتا جس دن بھیجا
کون کہتا ہے کہ محبت کی زبان ہوتی ہے
یہ تو حقیقت ہے نگاہوں سے بیان ہوتی ہے
بس اس دن وہ لڑھک گئ جینا دو بھر ہو گیا سات سروں کے رنگین دریا میں بہ گئ ایک سیکنڈ بھی اسکا خیال ذہن سے نا اترتا  ایسے جام پلاے  ایسی مدھ پلائ کہ مدہوش ہی ہو گئ مستی میں ڈولتی رہتی پاؤں کہیں رکھتی پڑتا کہیں دودھ ابل ابل کر بہہ جاتا ہانڈی روز جل جاتی بچوں کے ضروری کام بھی بھولنے لگی شوہر تو اپنا گزارا چلا لیتا مگر بچے چیخ پڑتے
ممّا آج یونیفارم استری نہیں کروائے ٹائ نہیں ہے ۔موزے کی جوڑی نہیں مل رہی ۔اف آ ج پھر اسکول بس چھوٹ گئی چھوٹی لاڈلی بیٹی منہ بسورتی کوئ بات نہیں ہم اپنی فیری کو آ ج خود چھوڑ آ تے ہیں گاڑی کی چابی اٹھاتی شوہر کی سرد نگاہوں سے بچتی واپسی پہ سبزی پھل بھی لیتی آ ؤں گی۔ مگر وہ ایک سیکنڈ بھی ذہن سے محو نا ہوتا  بن پئے ہی مست رہتی نشے میں مخمور آ آنکھیں کھل کر نا دیتیں کسلمندی سے پڑی مہکتی رہتی ملازمہ آ تی مارے باندھے کام نمٹاتی یہ جا وہ جا ساتھ حیران ہو کر سوچتی باجی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ۔پڑوسن پوچھتی بھابھی بڑے دن ہو گۓ آ پ کے ہاتھوں کی بریانی کھاۓ دوسری کہتی طاہر کو  آ پکے ہاتھ کی ربڑی بہت پسند ہے تیسری چپلی کباب یاد کر کے چٹخارہ لیتی وہ پہلو تہی کر جاتی اسکے خیال میں رہنا اچھا لگتا اسکی لا یعنی باتیں مزہ دینے لگیں وہ ہر روز ایک شعر اسکے نام کرتا
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر پھر پتہ نہیں اسے کیا ہوا ایکدم پیچھے ہٹ گیا نا صبح کا سلام نا پھولوں کے تحفے نا لمحے لمحے کی تفصیل سب بتانا بھول جاتا وہ سمجھی اکلوتا ہے ذمہ داریوں میں پھنسا ہے ٹائم نہیں ملا ہو گا  وقت کاٹے نہ کٹتا جو موٹر وے پہ سفر کے دوران  ہر گھنٹے بعد میسج کرتا اب یہاں ہوں اب وہاں ہوں یکسر  نظر انداز کردیتاوہ جلے پیر کی بلّی بنی گھومتی رہتی باغ باغیچہ ویران ہو گیا مگر جب دل کی بستی اجڑ رہی ہو تو بے زبان کی کون سنے میسج کم ہوۓ پھر بند ہوگئے اسے پنکھے لگ گۓ خود ہی مجبور ہو کے حا پوچھتی مصروفیت بتا کر ٹال دیتا کوئ اچھوتا سا شعر جواب کی آ س  میں بھیج دیتی وہ واہ لکھ کر گونگا ہو جاتاپہلے رابطے کم ہوۓ پھر راستے گم ہوۓ جو نام فرینڈز لسٹ میں سب سے اوپر جگمگاتا تھا ہوتے ہوتے سب سے نیچے چلا گیا وہ بے بسی سے دیکھتی رہی سو دفعہ فون اٹھاتی ،رکھتی میسج کروں یا نہیں انا بھی بیچ میں کھڑی ہو جاتی مگر عشق میں مرضیاں نہیں چلتیں اسے اسی کا بھیجا ایک شعر یاد آ گیا سو حال احوال کا پیغام لکھ دیا اسنے دیکھ کر رکھ دیا دلِ خوش فہم نے پھر ہمت کی جواباً  بڑی سختی سے کہا گیا میری ماں ایڈمٹ ہیں ہوسپٹل جارہا ہوں اس دن اپنی ذلت کا احساس شدت سے ہوا اب رابطہ نہیں کروں گی اس نے پکا عہد کر لیا اور خوب نبھایا ۔اس سے کوئی ہوسانہ محبت تو تھی نہیں جو قرب کی خواہش جاگتی  کھائی کھیلی عورت تھی شاید اسکو عشق کہتے ہیں وہ خود کو مطمۂن کرتی مگر دل نے کون کون سی دہائیاں نہیں دیں کیسے کیسے ضد نہیں کی مگر آ خری دن والی ذلت یاد کر کے دل کو سنبھال لیتی ۔گھرستی والی تھی کچھ نہ کچھ سنبھل ہی گئ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی ایسی ہوک اٹھتی کہ دل دیدار چاہتا ڈی پی کھول کے دیکھتی آ ج اس نے کیا شیئر کیا سب  پڑھتی کبھی لگتا یہ میسج میرے نام کا ہے مگر دماغ سے کیا عہد خوب نبھایا اب نہیں دھوکہ کھانا ۔وہ بھی شاید جان چھوٹنے پر مطمئن ہو گیاہے وہ گتھیاں سلجھاتی رہتی ۔آ ج موسم بڑا اچھا ہے اسکے شہر کے موسم کا احوال پاتے ہی سوچتی آ ج ضرور میسج کرے گا۔آج بہت ٹھنڈ ہے چاۓ کافی پیتے ہوئے یاد کیا ہوگا انبکس کھول کھول کر چیک کرتی مگر وہ تو کورا پڑا ہوتا کیسی کیسی گلاب رتیں گزر گئیں مگر وہ تو پتھر ہی رہا اب موسمِ برسات آ یا ہے اسے بھی بہت کچھ یاد دلائے گا دلِ خوش امید نے راہ دکھائی پچھلی برسات میں ہی تو ملا تھا کتنی بارشیں تھیں جو ایک دوسرے کو دکھا دکھا کر شیئر کی تھیں اور ایک ساتھ دیکھی تھیں مگر ایک ایک کر کے بارش والے سارے دن گزر گئے آ خر موسمِ برسات ہی گزر گیا اس پتھر میں جونک نا لگی وہ  بے دم ہوتے دل کو بہلانے میں کامیاب ہو ہی گئی  مگر سال بھر کا سفر صدیوں میں طے ہوا پورے گھر کا شیرازہ ہی بکھر گیا رستے ہوۓ زخموں پر کھرنڈ آ گیا۔حیرانگی اب بھی نا جاتی پتہ نہیں کیا چاہتا تھا خود ہی دراّتا ہوا آ یا دل کی بستی اور گھر گھرستی سب تہ تیغ کر ڈالی اور خود ہی کنارہ کش ہو گیا ایک دن  شیئر کیا ہوا تھ
ہوسکے تو سبب تلاش کرو
کوئ یونہی خفا نہیں ہوتا
وہ پھر دھوکہ کھا گئ شاید میرے لیئے لکھا ہو مگر غلطی کہاں ہے میری بہت سوچنے پر بھی یاد نہیں آ یا وہ جب بھی کچھ دوستوں کو شیئر کرتا وہ مرتے مرتے جی اٹھتی شاید آ ج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس آ ج نے نا آ نا تھا نا آ ئ حیران ہو ہوکے سوچتی  آ نکھیں مل مل کےخو کو  دیکھتی یہ میں ہوں چھ ماہ میں ہی خوبصورت عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی ہڈیاں نکل آ ئیں آ نکھوں میں اداسیوں نے ایسے ڈیرے ڈالے کہ کنّی کی طرح چمکتی آ نکھوں میں کوئ رنگ ہی نا بچا نا کالی نا کتھئ  وہ اداس رنگ آ آنکھیں لگتیں جو کبھی جگنو کی طرح جگمگاتی تھیں ہیرے کی طرح جگراتی تھیں اب مٹیالے دیئے لگتے ۔چپکے چپکے اللہ سے شکوہ کرتی قسمت میں نہیں تھا تو کوسوں دور سے ملایا کیوں ۔ادھیڑ بن میں لگی رہتی بدعا بھی تو نہیں دے سکتی جو پیارے ہوں انکے لئیے بدعا نہیں نکلتی بعینہ جیسے جبرائیل کے پر جلتے ہیں اسکی چار بہنوں چار بیٹیوں کا خیال آ جاتا بوڑھے ماں باپ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بیوی بیچاری کا کیا قصور ؟ان سب کی واحد امید وہی تو تھا اپنے کُرلاتے دل کی ایک نا سنتی بد دعائیں زبان تک آ تے آ تے دعاؤں کا روپ دھار لیتیں ۔
          ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر اللہ کا انصاف و حساب تو اسی دنیا میں چکانا ہو گا نا دل قہقہہ لگاتا چاہے بہن سے یا بیٹی سے ۔نہیں خدایا !وہ کانپ جاتی جو تکلیف میں نے اٹھائ وہ اس سے محفوظ رہے
ببانگِ دہل قطع تعلقی کا اعلان کر کے معلمع چڑھا لیا کچھ سنبھل گئ مگر جو بنیادیں اندر سے ہلی تھیں انہوں نے باہر کی عمارت کو کھنڈر میں تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے وہ  ٹوٹ ٹوٹ گئی آئرن لیڈی اب ٹوٹی پھوٹی عورت دِکھتی ہے اس نے خود ترسی کی قید میں آ تے ہوئے سوچا۔ اسے لگتا ہے روز روز  خود کو سنبھال لینے کا ورد کرتے رہنے سے ایک دن سنبھل ہی جاؤں گی۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔کاش ایک بار آ کر بتا دے کہ اس نے میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا  تو کرچیاں سمیٹنے میں آ سانی ہو جائے ایک تھکا تھکا سا سانس نکلا اس کے منہ سے
لمحے لمحے کی آ آنکھ پرنم ہے
کون کہتا ہے کہ وقت مرہم ہے

جمعرات، 8 دسمبر، 2016

السلام علیکم ورحمة الله و برکاته !

سراج الادب کے ہفتہ وار سلسلۂ " شاعرِ امروز " میں  آج ہم جناب پروفیسر سید غلام مُجتبٰے صاحب کو دعوت دے رہے ہیں کہ جناب تشریف لائیں اور اپنا تعارف و نَمُونۂ کلام  پیش فرمائیں ۔
سید صاحب دنیائے شعر و ادب میں ویسے تو مُحتاجِ تعارف نہیں ہیں ۔ اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں ۔ آپ کی سب سے بڑی خواہش نوجوان نسل کی تربیت ہے ۔ جس کے لئے آپ نے کئی طریقے آزمائے ۔ہیں ۔ موجودہ وقت کے تقاضے کے مُطابق اور نوجوانوں کو بر سرِ روزگار لگانے کی غرض سے پہلے سید صاحب نے ۱۹۷۷ میں ٹائیپنگ اور شارٹ ہینڈ اکیڈمی قائم کی جو ۱۹۹۶ تک جاری رہی ۔ بہت سے نوجواں یہاں سے ٹائیپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھ کر بر سرِ روز گار لگے ۔ پھر کمپیؤٹر دور کی اہمیت کا ادراک  کرتے ہوئے " کمپیوٹر اکیڈمی " کا قیام عمل میں لائے اور بہت سے بے روز گار نوجوانوں کے لئے حلال کی روزی کمانے کے راستے کُھولے ۔
سید غلام مُجتبٰے صاحب ۲۰۱۰ سے تا حال پنجاب کالج گجرات میں اردو زبان و ادب  کی تعلیم دے رہے ہیں ۔ موصوف کا تعلیم و تدریس سے شغف اتنا گہرا ہے کہ آپ تربیت اور فروغِ علم کی کوششوں میں مستقل لگے رہتے ہیں ۔ تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ سید صاحب اس وقت ایک مُنفرد ادبی کارنامہ انجام دینے میں بڑی تندہی سے لگے ہوئے ہیں ۔
ساختیات اور پسِ ساختیات کے حوالے سے مرزا  اسد الله خان غالب کے منتخب اردو اور فارسی کلام کی شرح جدید ترین سائنسی تحقیق سے منطبق  کرنے کی سعی کر رہے ہیں جو یقیناً خاصا دشورار ، مُشکل اور نادر کام ہوگا ۔ اس تشریح میں لفظوں کے لغوی، اصطلاحی اور شاعر کے ذہن میں چُھپے ہوئے مفاہیم کا سیر  حاصل بیان ہوگا جو تشریح کے ضمن  میں بالکل نئی اور عجُوبہ کوشش  ہو گی  ۔