" شاعرۂ اِمرُوز "
طاہرہ تَبَسُّم اعظمی
خطۂ اعظم گڑھ میں شبلی نعمانی کے بُوئے ہوئے تُخم ہائے گُل و اَثمار تناور درخت بنے جن کے سائے تلے تشنگانِ علم و ادب خوب خوب سیراب ہوئے ۔ ایک نہ پنپا تو پودا تھا یاسمین کا ۔ وقت گُزرتا گیا آبیاری ہوتی رہی کہ اچانک سر زمینِ راجہ پُور سَکرَور سے ایک کونپل نے سر نکالا اور دیکھتے ہی دیکھتے شبلی کے چمن زار میں تَبَسُّم بکھر گیا ، علاقے کے اخبارات کی پیشانی دَمَک اُٹھی ۔ ایک تیرہ سالہ بچی کی بڑوں جیسی سوچ کی غزل چھپی تو اہلِ علم نے بچی کے والد کو مُبارک باد کے پیغامات بھیجے اور باپ نے عالمِ سر خوشی میں باندازِ تَفاخُر اعلان کر دیا کہ میں اپنی بیٹی کا کلام کتابی شکل میں شایع کراؤں گا ، مگر وقت کی ستم ظریفی کہ وقت آیا جب تو خُود نہ چل بسے ۔ بیٹی کو جس انداز سے زیورِ علم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے وہ بھی نہ کر سکے ۔ دیہاتُوں میں تعلیمی سُہولتُوں کا فقدان ، بچی کو اعلٰی تعلیم کی وہ سُہُولتیں مُیسر نہ آسکیں جس کی اُسے لگن اور باپ کو تمنا تھی ۔ صرف ایک محدود مُدت کے لئے کلکتہ کے ایک کانونٹ اسکول سے کچھ کسبِ فیض کا موقع مُیسر آیا ۔ پھر نا گزیر حالات کے تحت گاؤں واپس آنا پڑا ۔ قریب کے قصبے میں قدرے بہتر تعلیمی سُہولتیں موجود تھیں اور باپ کی خواہش بھی تھی مگر معاشرتی پابندیاں ، رسم رواج ، تعلیمِ نسواں کی مُخالفتیں سدِ راہ بنیں رہیں ، خواہش پُوری نہ ہو سکی ۔ والد بسلسلۂ کاروبار گھر سے اکثر باہر رہتے تھے مگر پھر بھی اُنھوں نے اپنے ذاتی علم و بصیرت سے اپنی بیٹی کی علم کی پیاس بُجھانے کی حتی الوسع کوشش کی اور کچھ منازل طے کرا بھی دیں ساتھ ہی بیٹی اپنی خُدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہُوتے نظم و نثر میں اپنی تخلیقات مقامی اخبارات و رسائل کی زینت بناتی رہی ۔
میں نے ہر وہ وسیلہ یہ جاننے کے لئے اختیار کیا کہ خطۂ اعظم گڑھ ، جس نے ہمیں بہت سے ادیب ، شاعر ، مُبلغ و مُصلح دیئے ، کوئی شاعرہ بھی دی ، پَر ناکامی رہی ۔ اِسی بُنیاد پر میں بلا خوفِ تردید طاہرہ تَبَسُّم کو اعظم گڑھ کی " وَحْدھَا لَا شَرِیک لھا شَاعِرَہ " کہتا ہوں ۔ وہ مثل ہے نا کہ " ہونہار بِروَا کے چِکنے چِکنے پَات " اُسی کے مِصداق اب ذرا تبسُم کی ابتدائی تخلیق مُلاحظہ فرمایئے :
نہ ہُوں گے یہ بَرق و شجر ، دیکھ لینا
چلی جُو ہَوا تیز تر ، دیکھ لینا
نکلنا جُو گھر سے ، سنبھل کر نکلنا
ہر اِک مُوڑ ہے پُر خطر ، دیکھ لینا
مَنَائیں گے اہلِ سیاست ، دِوالی
جلے گا غریبُوں کا گھر، دیکھ لینا
سَمَجھتے ہو جن کو ، ہیں آنکھوں کا کاجل
کریں گے وہی آنکھ تر ، دیکھ لینا
تَبَسُّم ! اگر سَچ کا کچھ حوصلہ ہے
تَو پہلے ہَتھیلی پہ سَر ، دیکھ لینا
میں نے کہا ، تَبَسُّم کی فکرِ شعر گوئی مقصدیت کے طابع ہے ۔ " نکلنا جو گھر سے سنبھل کر نکلنا " آج کے دور میں کتنا سچ ہے ۔ " جلے گا غریبُوں کا گھر دیکھ لینا ۔" کیا روز ہم یہی دیکھ نہیں رہے ہیں ۔ کیا آنکھوں کا کاجل بننے والے ہی آنکھیں تر نہیں کر رہے اور سچ کہنے پر سر نہیں کٹ رہے ، تو میں نے کیا بیجا کہا ، بچی کی سوچ بڑوں جیسی !
تبسُم صاحبہ اعظمی کی اِس ابتدائی کاوش کو دیکھتے ہوئے موجُودہ تخلیقات کا مُوازنہ کیجئے ، تو واضح ہوگا کہ طاہرہ ایک فکر لے کر اُٹھی ہیں ، ان کی شاعری محض حظ کی ، گُل و بُلبل اور عارض و گیسو کی شاعری نہیں ہے ، مقصدیت ان کی تخلیقات کا محور ہے ۔ ابتداء تا انتہا ، تبسُم نے ، اب تک ، اپنے اسپِ تَخَیُّل کو ایک مَخصوص رستہ ہی پر دواں رکھا ہوا ہے اور جو " دھنک " ۔۔۔۔۔ قَوسِ قُزح ، سات رنگوں کی تخلیق پیش کی ہے ، زیرِ طباعت ہے ، آیا ہی چاہتی ہے ۔ طاہرہ کا تَبَسُّم نام و نَمود اور شہرت پر نہیں ، اس سے یہ بھاگتی ہیں اور آج بھی اپنے کو " طفلِ مکتب " کہتی ہیں ، اپنے کلام کی طباعت محض والد کی خواہش کی تکمیل کی خاطر کرا رہی ہیں ۔ آپ دیکھیں گے اُس میں ساتُوں رنگ ۔۔۔۔ غزل ، نظم ، رُباعیات ، قطعات ، دُوہے ، تخمیسیں ، مشاہیر کی زمینُوں میں طبع آزمائی ، سب کچھ مَوجُود ہے اور بہت سی بُھولی بسری اصناف کو زندہ ہی نہیں کیا ہے بلکہ نئے نئے مَوضُوعات پر طبع آزمائی کی ہے ۔ اپنے اِس پہلے مجُوعہ کلام کے لئے تبسُم نے کیا خوب کہا ہے :
" اَشکبَاری میں جُو پُھوٹی ہے تَبَسُّم کی کرن ،
تب کہیں جا کے ، یہ رنگین دھنک اُبھری ہے ۔"
تبسُم بُنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں ، رنگِ غزل چُوکھا کرنا خوب جانتی ہیں ۔ اِن کی شاعری ، جیسا کہ کہا ، مقصدیت کی شاعری ہے ۔ ہمارے گرد و پیش پھیلی ہوئی ناہمواریاں ، ظلم و تَعَدِّی ، کُشت و خون کی ارزانی ، دہشت گردی ، بیجا رسم و رواج ، غربت و افلاس کے سائے ، جنھوں نے غریب سے جینے کا حق چھین لیا ہے ، تبسُم کے قلب بَرمَا کر رکھ دیا ہے اور جو کچھ وہاں سے نکلتا ہے اُسی کسک کی ترجمانی ہے ، آنسو ہیں اُس میں اور آہیں بھی ۔ میرے کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تبسم کے کلام میں صرف قُنُوطیت ہے ، حزن و ملال ہے اور آہ و زاری ہی ہے ۔ تَخَلُّص اِن کا ہے تبسم ، کوئی خوشگوار منظر نظر کے سامنے آگیا تو تبسُم بھی بکھیر دیتی ہیں ۔ جس گرد و پیش میں ، جس ماحول میں زندگی بسر کر رہی ہیں ، علم و عمل کی راہیں اتنی کُشادہ نہیں ۔ اِس کے باوجود ، یَکَّا و تنہا ، صرف ایک مُرَبِّی و رہنما ، نام کا یکتا ، شعر و سُخن میں یکتا ، اُستاد کی اُنگلی پکڑ کر جتنی منازل اب تک طے کی ہیں ، اور خُوب کی ہیں ، حیرت و استعجاب سے زیادہ قابلِ رشک ہیں ۔
بہت سی حسرتیں ہیں تبسم کے دل میں ۔ والد تو جلد ساتھ چُھوڑ گئے اور پھر کچھ عرصے بعد ہی والدہ بھی چل بسیں ۔ مُونس و غمخوار علاوہ شفیق بھائی و بھاوج کے کوئی اور نہ رہا ، ایک نونہال دلبستگی کا سامان ، آرزوؤں کا محور ہے ۔ باپ کا وہ جملہ تبسم کے کانوں میں سدا گونجتا رہا ، " اپنی بیٹی کا کلام چھپواؤں گا ،" تو کلام کو چھپنے کے قابل بنانے کے لئے تبسم نے جی جان سے کوشش کی جتنا بھی ممکن ہو سکا علم کے ساغر پئے اور سیراب ہو کر کیا کچھ اردو ادب کو نہ دیا ، اور یہ کسی طویل عرصہ کی کار کردگی بھی نہیں ۔ اِن کی شاعری کی عمر بہت کم ہے مگر اِس چُھوٹی سی عمر میں اگر کہا جائے اساتذہ کی ہمسری کی ہے ، تو بیجا نہ ہوگا ، اپنی صلاحیتوں کا لُوہا اہلِ علم سے بلآخر مَنوا ہی کر چُھوڑا ۔ سوچتا ہوں یہ سب باپ کی آزوؤں ، ماں کی دعاؤں ، اُستاد کی رہنُمائی ، بھائی کی شفقتوں کا مرہونِ مِنَّت ہے یا صرف خُدا داد صلاحیتیں !
طاہرہ اور تبَسُم ( یہ دُو نہیں ، پاکی و خوشگواری کا مُرَکَّب ہیں ) کے بارے میں لکھنا تو بہت کچھ ہے ، مگر چُھوڑتا ہوں آپ اہلِ علم کی بصیرتوں کے لئے ، جو کسر رہ گئی ہے وہ آپ اپنے تبصروں میں اِن کے کلام کی روشنی میں پُوری کریں گے ۔
سراج الادب کے لئے یہ ایک اعزاز ہے اور باعثِ تفاخر بھی ، کہ آج ہماری ایک ایڈمن " شاعرۂ اِمروز " ہیں ۔ کلامِ شاعرہ سے تو آپ برابر مُستفیض ہوتے ہی رہے ہیں اور مزید پیش ہوگا بھی ۔ میں کچھ زیادہ پیش نہ کروں گا ، بس اتنا کچھ ہی دیکھ لیجئے :
موسمِ درد میں ، زخمُوں کا تَپَکنا طے تھا
صبر کے جام کا ، اِک روز چَھلکنا طے تھا
کس کو معلوم ، پسِ پردہ جو سِسکی ہے نہاں
چُوڑیُوں کا تو کلائی میں کَھنَکنا طے تھا
یاس کی کوکھ سے پُھوٹی ہے ، اُمیدوں کی کرن
گُھپ اندھرے میں ، ستارُوں کا چمکنا طے تھا
آنکھوں آنکُھوں میں وہ جذبات ہوئے ہیں ظاہر
جن کے اظہار میں ، ہونٹوں کا جھجکنا طے تھا
دل کا آئینہ بھلا کیسے بچاتے آخر
سنگ کے شہر میں ، شیشے کا درکنا طے تھا
گُل کا انجامِ تبسم تھا نگاہوں میں مگر
پھر بھی کلیوں کے مُقَدَّر میں چِٹکنا طے تھا
----------------------------
ثواب
خُدا بستا ہے جس دل میں
اُسے ہرگز دُکھائیں مَت
کہ بے بس اور مظلُومُوں کے بڑھ کر پُوچھ لیں آنسُو
اور اُن کے کام ہم آئیں
جو غُربت اور خود داری کی چادر اُوڑھ کر خامُوش رہتے ہیں
کسی پر بیکسی اپنی کبھی ظاہر نہیں کرتے
مدد اُن کی کریں ایسے
کہ دائیں ہاتھ سے دیں اور بائیں کو خبر نہ ہو
بس اِس سے بڑھ کے نیکی اور کوئی ہو نہیں سکتی
بلا تفریق مخلوقِ خُدا کے کام آئیں ہم
------------------------------------
غالب کی غزل پر تَخمِیس :
ہم نشیں کوئی نہ ہو اور راز داں کوئی نہ ہو
مہرباں کوئی نہ ہو ، نا مہرباں کوئی نہ ہو
ہو فقط تنہائی اپنی ، اور وہاں کوئی نہ ہو
" رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سُخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو "
کوئی اپنا ، اور نہ کوئی اب پرایا چاہئے
کچھ نہ کُھویا چاہئے اب ، کچھ نہ پایا چاہئے
اُٹھ گیا دنیا سے دل ، اب کیا لگایا چاہئے
" بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہئے
کوئی ہمسایہ نہ ہو ، اور پاسباں کوئی نہ ہو "
زندگی اور موت کا جب ہے خُدا کو اختیار
ہو تَوَکُّل بس اُسی پر ، اُس پہ ہو دار و مدار
کیوں کریں مِنَّت کشی ، کیوں ہوں کسی کے زیرِ بار
" پڑئے گر بیمار ، تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیئے ، تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو ۔"
------------------------------------
صحرا میں بھی یہ پُھول کھلا دیتی ہے
اور خار ، گُلستاں میں ، اُگا دیتی ہے
چِنگاری بھی پوشیدہ ہے اِس میں ، دیکھو
چُھوٹی سی زباں ، آگ لگا دیتی ہے
______________
ہر بار یہ اُمید کہ ہوگا جل تھل
ہر بار رہی پیاس سے دھرتی بیکل
ہر بار ہی سحرا نے دعائیں مانگیں
ہر بار گُلستان پہ برسا بادل
-----------------------
بفضلِ خُدا ، سر اُٹھا کر چلے
نظر آئینہ سے ملا کر چلے
کسی کا بُرا ہم نے چاہا نہیں
کسی سے نہ نظریں چُراکر چلے
____________
دریا کو اُس کے ظرف کی عظمت بتائے
صحرا کی وسعتوں پہ تبسم لُٹائے
بڑھ جائے ظلم حد سے تو تیشہ اُٹھائے
فرعونیت کے سامنے ، سر مت جُھکائے
----------------------------
دوہے
مُنھ پر چِکنِی سب کہیں ، سب جَتلَائیں پیار
جو مُنھ پیچھے ساتھ دے، وہ ہے سَچَّا یار
------------------------------
نَفرت کی دِیوار کیوں ، کیوں آپس میں جنگ
کھا جاتا ہے بارہا ، لُوہے کو بھی زَنگ
طاہرہ تَبَسُّم صاحبہ اعظمی کو اب دعوت دُوں گا کہ اپنے الفاظ میں احبابِ سراج الادب سے جو کہنا چاہیں اور اپنے کلام سے جو کچھ پیش کرنا چاہیں پیش کریں ۔ آج وہ اپنے کو اِس گروپ کا ایڈمن کم مہمان زیادہ تصور کریں ۔
جی ، تَبسُّم ہم منتظر ہیں آپ کے ، تشریف لائیئے !!!
طاہرہ تَبَسُّم اعظمی
خطۂ اعظم گڑھ میں شبلی نعمانی کے بُوئے ہوئے تُخم ہائے گُل و اَثمار تناور درخت بنے جن کے سائے تلے تشنگانِ علم و ادب خوب خوب سیراب ہوئے ۔ ایک نہ پنپا تو پودا تھا یاسمین کا ۔ وقت گُزرتا گیا آبیاری ہوتی رہی کہ اچانک سر زمینِ راجہ پُور سَکرَور سے ایک کونپل نے سر نکالا اور دیکھتے ہی دیکھتے شبلی کے چمن زار میں تَبَسُّم بکھر گیا ، علاقے کے اخبارات کی پیشانی دَمَک اُٹھی ۔ ایک تیرہ سالہ بچی کی بڑوں جیسی سوچ کی غزل چھپی تو اہلِ علم نے بچی کے والد کو مُبارک باد کے پیغامات بھیجے اور باپ نے عالمِ سر خوشی میں باندازِ تَفاخُر اعلان کر دیا کہ میں اپنی بیٹی کا کلام کتابی شکل میں شایع کراؤں گا ، مگر وقت کی ستم ظریفی کہ وقت آیا جب تو خُود نہ چل بسے ۔ بیٹی کو جس انداز سے زیورِ علم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے وہ بھی نہ کر سکے ۔ دیہاتُوں میں تعلیمی سُہولتُوں کا فقدان ، بچی کو اعلٰی تعلیم کی وہ سُہُولتیں مُیسر نہ آسکیں جس کی اُسے لگن اور باپ کو تمنا تھی ۔ صرف ایک محدود مُدت کے لئے کلکتہ کے ایک کانونٹ اسکول سے کچھ کسبِ فیض کا موقع مُیسر آیا ۔ پھر نا گزیر حالات کے تحت گاؤں واپس آنا پڑا ۔ قریب کے قصبے میں قدرے بہتر تعلیمی سُہولتیں موجود تھیں اور باپ کی خواہش بھی تھی مگر معاشرتی پابندیاں ، رسم رواج ، تعلیمِ نسواں کی مُخالفتیں سدِ راہ بنیں رہیں ، خواہش پُوری نہ ہو سکی ۔ والد بسلسلۂ کاروبار گھر سے اکثر باہر رہتے تھے مگر پھر بھی اُنھوں نے اپنے ذاتی علم و بصیرت سے اپنی بیٹی کی علم کی پیاس بُجھانے کی حتی الوسع کوشش کی اور کچھ منازل طے کرا بھی دیں ساتھ ہی بیٹی اپنی خُدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہُوتے نظم و نثر میں اپنی تخلیقات مقامی اخبارات و رسائل کی زینت بناتی رہی ۔
میں نے ہر وہ وسیلہ یہ جاننے کے لئے اختیار کیا کہ خطۂ اعظم گڑھ ، جس نے ہمیں بہت سے ادیب ، شاعر ، مُبلغ و مُصلح دیئے ، کوئی شاعرہ بھی دی ، پَر ناکامی رہی ۔ اِسی بُنیاد پر میں بلا خوفِ تردید طاہرہ تَبَسُّم کو اعظم گڑھ کی " وَحْدھَا لَا شَرِیک لھا شَاعِرَہ " کہتا ہوں ۔ وہ مثل ہے نا کہ " ہونہار بِروَا کے چِکنے چِکنے پَات " اُسی کے مِصداق اب ذرا تبسُم کی ابتدائی تخلیق مُلاحظہ فرمایئے :
نہ ہُوں گے یہ بَرق و شجر ، دیکھ لینا
چلی جُو ہَوا تیز تر ، دیکھ لینا
نکلنا جُو گھر سے ، سنبھل کر نکلنا
ہر اِک مُوڑ ہے پُر خطر ، دیکھ لینا
مَنَائیں گے اہلِ سیاست ، دِوالی
جلے گا غریبُوں کا گھر، دیکھ لینا
سَمَجھتے ہو جن کو ، ہیں آنکھوں کا کاجل
کریں گے وہی آنکھ تر ، دیکھ لینا
تَبَسُّم ! اگر سَچ کا کچھ حوصلہ ہے
تَو پہلے ہَتھیلی پہ سَر ، دیکھ لینا
میں نے کہا ، تَبَسُّم کی فکرِ شعر گوئی مقصدیت کے طابع ہے ۔ " نکلنا جو گھر سے سنبھل کر نکلنا " آج کے دور میں کتنا سچ ہے ۔ " جلے گا غریبُوں کا گھر دیکھ لینا ۔" کیا روز ہم یہی دیکھ نہیں رہے ہیں ۔ کیا آنکھوں کا کاجل بننے والے ہی آنکھیں تر نہیں کر رہے اور سچ کہنے پر سر نہیں کٹ رہے ، تو میں نے کیا بیجا کہا ، بچی کی سوچ بڑوں جیسی !
تبسُم صاحبہ اعظمی کی اِس ابتدائی کاوش کو دیکھتے ہوئے موجُودہ تخلیقات کا مُوازنہ کیجئے ، تو واضح ہوگا کہ طاہرہ ایک فکر لے کر اُٹھی ہیں ، ان کی شاعری محض حظ کی ، گُل و بُلبل اور عارض و گیسو کی شاعری نہیں ہے ، مقصدیت ان کی تخلیقات کا محور ہے ۔ ابتداء تا انتہا ، تبسُم نے ، اب تک ، اپنے اسپِ تَخَیُّل کو ایک مَخصوص رستہ ہی پر دواں رکھا ہوا ہے اور جو " دھنک " ۔۔۔۔۔ قَوسِ قُزح ، سات رنگوں کی تخلیق پیش کی ہے ، زیرِ طباعت ہے ، آیا ہی چاہتی ہے ۔ طاہرہ کا تَبَسُّم نام و نَمود اور شہرت پر نہیں ، اس سے یہ بھاگتی ہیں اور آج بھی اپنے کو " طفلِ مکتب " کہتی ہیں ، اپنے کلام کی طباعت محض والد کی خواہش کی تکمیل کی خاطر کرا رہی ہیں ۔ آپ دیکھیں گے اُس میں ساتُوں رنگ ۔۔۔۔ غزل ، نظم ، رُباعیات ، قطعات ، دُوہے ، تخمیسیں ، مشاہیر کی زمینُوں میں طبع آزمائی ، سب کچھ مَوجُود ہے اور بہت سی بُھولی بسری اصناف کو زندہ ہی نہیں کیا ہے بلکہ نئے نئے مَوضُوعات پر طبع آزمائی کی ہے ۔ اپنے اِس پہلے مجُوعہ کلام کے لئے تبسُم نے کیا خوب کہا ہے :
" اَشکبَاری میں جُو پُھوٹی ہے تَبَسُّم کی کرن ،
تب کہیں جا کے ، یہ رنگین دھنک اُبھری ہے ۔"
تبسُم بُنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں ، رنگِ غزل چُوکھا کرنا خوب جانتی ہیں ۔ اِن کی شاعری ، جیسا کہ کہا ، مقصدیت کی شاعری ہے ۔ ہمارے گرد و پیش پھیلی ہوئی ناہمواریاں ، ظلم و تَعَدِّی ، کُشت و خون کی ارزانی ، دہشت گردی ، بیجا رسم و رواج ، غربت و افلاس کے سائے ، جنھوں نے غریب سے جینے کا حق چھین لیا ہے ، تبسُم کے قلب بَرمَا کر رکھ دیا ہے اور جو کچھ وہاں سے نکلتا ہے اُسی کسک کی ترجمانی ہے ، آنسو ہیں اُس میں اور آہیں بھی ۔ میرے کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تبسم کے کلام میں صرف قُنُوطیت ہے ، حزن و ملال ہے اور آہ و زاری ہی ہے ۔ تَخَلُّص اِن کا ہے تبسم ، کوئی خوشگوار منظر نظر کے سامنے آگیا تو تبسُم بھی بکھیر دیتی ہیں ۔ جس گرد و پیش میں ، جس ماحول میں زندگی بسر کر رہی ہیں ، علم و عمل کی راہیں اتنی کُشادہ نہیں ۔ اِس کے باوجود ، یَکَّا و تنہا ، صرف ایک مُرَبِّی و رہنما ، نام کا یکتا ، شعر و سُخن میں یکتا ، اُستاد کی اُنگلی پکڑ کر جتنی منازل اب تک طے کی ہیں ، اور خُوب کی ہیں ، حیرت و استعجاب سے زیادہ قابلِ رشک ہیں ۔
بہت سی حسرتیں ہیں تبسم کے دل میں ۔ والد تو جلد ساتھ چُھوڑ گئے اور پھر کچھ عرصے بعد ہی والدہ بھی چل بسیں ۔ مُونس و غمخوار علاوہ شفیق بھائی و بھاوج کے کوئی اور نہ رہا ، ایک نونہال دلبستگی کا سامان ، آرزوؤں کا محور ہے ۔ باپ کا وہ جملہ تبسم کے کانوں میں سدا گونجتا رہا ، " اپنی بیٹی کا کلام چھپواؤں گا ،" تو کلام کو چھپنے کے قابل بنانے کے لئے تبسم نے جی جان سے کوشش کی جتنا بھی ممکن ہو سکا علم کے ساغر پئے اور سیراب ہو کر کیا کچھ اردو ادب کو نہ دیا ، اور یہ کسی طویل عرصہ کی کار کردگی بھی نہیں ۔ اِن کی شاعری کی عمر بہت کم ہے مگر اِس چُھوٹی سی عمر میں اگر کہا جائے اساتذہ کی ہمسری کی ہے ، تو بیجا نہ ہوگا ، اپنی صلاحیتوں کا لُوہا اہلِ علم سے بلآخر مَنوا ہی کر چُھوڑا ۔ سوچتا ہوں یہ سب باپ کی آزوؤں ، ماں کی دعاؤں ، اُستاد کی رہنُمائی ، بھائی کی شفقتوں کا مرہونِ مِنَّت ہے یا صرف خُدا داد صلاحیتیں !
طاہرہ اور تبَسُم ( یہ دُو نہیں ، پاکی و خوشگواری کا مُرَکَّب ہیں ) کے بارے میں لکھنا تو بہت کچھ ہے ، مگر چُھوڑتا ہوں آپ اہلِ علم کی بصیرتوں کے لئے ، جو کسر رہ گئی ہے وہ آپ اپنے تبصروں میں اِن کے کلام کی روشنی میں پُوری کریں گے ۔
سراج الادب کے لئے یہ ایک اعزاز ہے اور باعثِ تفاخر بھی ، کہ آج ہماری ایک ایڈمن " شاعرۂ اِمروز " ہیں ۔ کلامِ شاعرہ سے تو آپ برابر مُستفیض ہوتے ہی رہے ہیں اور مزید پیش ہوگا بھی ۔ میں کچھ زیادہ پیش نہ کروں گا ، بس اتنا کچھ ہی دیکھ لیجئے :
موسمِ درد میں ، زخمُوں کا تَپَکنا طے تھا
صبر کے جام کا ، اِک روز چَھلکنا طے تھا
کس کو معلوم ، پسِ پردہ جو سِسکی ہے نہاں
چُوڑیُوں کا تو کلائی میں کَھنَکنا طے تھا
یاس کی کوکھ سے پُھوٹی ہے ، اُمیدوں کی کرن
گُھپ اندھرے میں ، ستارُوں کا چمکنا طے تھا
آنکھوں آنکُھوں میں وہ جذبات ہوئے ہیں ظاہر
جن کے اظہار میں ، ہونٹوں کا جھجکنا طے تھا
دل کا آئینہ بھلا کیسے بچاتے آخر
سنگ کے شہر میں ، شیشے کا درکنا طے تھا
گُل کا انجامِ تبسم تھا نگاہوں میں مگر
پھر بھی کلیوں کے مُقَدَّر میں چِٹکنا طے تھا
----------------------------
ثواب
خُدا بستا ہے جس دل میں
اُسے ہرگز دُکھائیں مَت
کہ بے بس اور مظلُومُوں کے بڑھ کر پُوچھ لیں آنسُو
اور اُن کے کام ہم آئیں
جو غُربت اور خود داری کی چادر اُوڑھ کر خامُوش رہتے ہیں
کسی پر بیکسی اپنی کبھی ظاہر نہیں کرتے
مدد اُن کی کریں ایسے
کہ دائیں ہاتھ سے دیں اور بائیں کو خبر نہ ہو
بس اِس سے بڑھ کے نیکی اور کوئی ہو نہیں سکتی
بلا تفریق مخلوقِ خُدا کے کام آئیں ہم
------------------------------------
غالب کی غزل پر تَخمِیس :
ہم نشیں کوئی نہ ہو اور راز داں کوئی نہ ہو
مہرباں کوئی نہ ہو ، نا مہرباں کوئی نہ ہو
ہو فقط تنہائی اپنی ، اور وہاں کوئی نہ ہو
" رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سُخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو "
کوئی اپنا ، اور نہ کوئی اب پرایا چاہئے
کچھ نہ کُھویا چاہئے اب ، کچھ نہ پایا چاہئے
اُٹھ گیا دنیا سے دل ، اب کیا لگایا چاہئے
" بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہئے
کوئی ہمسایہ نہ ہو ، اور پاسباں کوئی نہ ہو "
زندگی اور موت کا جب ہے خُدا کو اختیار
ہو تَوَکُّل بس اُسی پر ، اُس پہ ہو دار و مدار
کیوں کریں مِنَّت کشی ، کیوں ہوں کسی کے زیرِ بار
" پڑئے گر بیمار ، تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیئے ، تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو ۔"
------------------------------------
صحرا میں بھی یہ پُھول کھلا دیتی ہے
اور خار ، گُلستاں میں ، اُگا دیتی ہے
چِنگاری بھی پوشیدہ ہے اِس میں ، دیکھو
چُھوٹی سی زباں ، آگ لگا دیتی ہے
______________
ہر بار یہ اُمید کہ ہوگا جل تھل
ہر بار رہی پیاس سے دھرتی بیکل
ہر بار ہی سحرا نے دعائیں مانگیں
ہر بار گُلستان پہ برسا بادل
-----------------------
بفضلِ خُدا ، سر اُٹھا کر چلے
نظر آئینہ سے ملا کر چلے
کسی کا بُرا ہم نے چاہا نہیں
کسی سے نہ نظریں چُراکر چلے
____________
دریا کو اُس کے ظرف کی عظمت بتائے
صحرا کی وسعتوں پہ تبسم لُٹائے
بڑھ جائے ظلم حد سے تو تیشہ اُٹھائے
فرعونیت کے سامنے ، سر مت جُھکائے
----------------------------
دوہے
مُنھ پر چِکنِی سب کہیں ، سب جَتلَائیں پیار
جو مُنھ پیچھے ساتھ دے، وہ ہے سَچَّا یار
------------------------------
نَفرت کی دِیوار کیوں ، کیوں آپس میں جنگ
کھا جاتا ہے بارہا ، لُوہے کو بھی زَنگ
طاہرہ تَبَسُّم صاحبہ اعظمی کو اب دعوت دُوں گا کہ اپنے الفاظ میں احبابِ سراج الادب سے جو کہنا چاہیں اور اپنے کلام سے جو کچھ پیش کرنا چاہیں پیش کریں ۔ آج وہ اپنے کو اِس گروپ کا ایڈمن کم مہمان زیادہ تصور کریں ۔
جی ، تَبسُّم ہم منتظر ہیں آپ کے ، تشریف لائیئے !!!





