پودے اور درخت جاندار ہوتے ہیں بڑھتے ہیں،پھلتے پھولتے اور پھیلتے ہیں ۔ رنگ بدلتے ہیں موسم کی تبدیلیوں کا اثر لیتے ہیں کبھی ہرے بھرے ،سرسبز و شاداب اور کبھی ٹنڈ منڈ دِکھتے ہیں ۔ آ کسیجن خارج کرتے ہیں خود بھی سانس لیتے ہیں اور ہماری سانسیں بھی صاف ستھری کر دیتے ہیں حتیٰ کہ سنتے بھی ہیں بس بول نہیں سکتے ۔ کسی زمانے میں جب ہم بچے تھے تو اماں جان یا بابا جان یہ بات کہتے تھے مگر ہمیں یقین نہیں ہوتا تھا ہم تو بس حرکت کرنے والوں کو ہی جاندار سمجھتے ۔
پودوں سے پیار اس زمانے میں شروع ہوا جب مستنصر حسین تارڑ نئے نئے چاچا جی بنے تھے ۔ ہم میں سے بہتوں کو یاد ہوگا جب صبح کی نشریات شروع ہوئیں تھیں آ ج کے سارے قارئین اسوقت اسکولوں میں طالبِعلم ہوں گے ۔ کچھ چھوٹے درجوں میں اور کچھ بڑے درجوں میں ۔ مگر چاچا جی کا اسٹائل اور انداز سب ہی کو بہت بھاتا تھا جب وہ عین اسکول کے لئیے نکلنے سے پہلے سب کو کارٹونز دکھاتے تھے دو ڈھائی منٹ کے ۔ ان دو ڈھائی منٹ کے کارٹونز کے لئیے اسکول کے لئیے تیار ہوتے بچےچاچا جی کی گھنٹہ بھر پہلے کی بے سروپا باتیں برداشت کئے جاتے اور وہ ساری بے سروپا باتیں آ ج تک پاسبانِ عقل بن کے زندگی میں بہت کام آ ئیں ۔ کارٹون تو کب کے پتہ نہیں کہاں اڑن چھو ہو گئےبلکہ بعد میں بہت اچھے کارٹونز اور سیریز، سیریلز اور اینی میٹڈ موویز تک ترقی پا گئے مگر ان جیسی میٹھی اور کام کی بے سروپا باتیں دوبارہ سننے کو نہیں ملیں یا شاید ہم نے توجہ نہیں دی ۔
پودوں سے پہلا لگاؤ چاچا جی کے توسط سے ہی ممکن ہوا ۔ ایسے ہی کسی روز کارٹونز کے انتظار میں انکی باتیں زبردستی کانوں میں ڈال رہے تھے جنکا لبِ لباب یہ تھا کہ پھولوں اور پودوں کے بھی کان ہوتے ہیں محسوسات ہوتے ہیں اگر آ پ پودوں کے پاس چند گھڑیاں بیٹھ کر ان سے باتیں کریں ان کو سہلائیں ہاتھوں سے چھوئیں،انکے ساتھ محبت بھری باتیں کریں اور اس دوران ان کے ہلکے سڑے، خراب ہوتے پتّے اتار دیں تو پودہ بہت خوبصورت ہو جائے گابنسبت اسکے جسے پیار اور توجہ سے محروم رکھا گیا ہو ۔ عقل کے کسی خانے میں یہ بات فٹ ہو کے نا دی ۔ اگرچہ سائنس اور بائیو سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا مگر تجربہ کرنے کی ٹھان لی اتفاق سے کچھ روز بعد سڑک پر ریڑھی والا پودے بیچتے ہوئے گزرا تو ضد کر کے گلاب کے دو پودے گملوں سمیت لے لئے اور انکی خاطر داری شروع کر دی نسبتا دور دور رکھ دیا کہ ایک سے کی گئی پیار بھری سرگوشیاں دوسرا نا سن پائے ایک کو تو اپنے پیار اور محبت سے خوب توجہ دی اور دوسرے کو یکسر محروم رکھا پانی کا خیال اگرچہ برابر ہی رکھا چائے کی ساری پتی اماں جان بڑے انصاف سے آ دھی آدھی تقسیم کر کے ڈالتیں انکے خیال میں چائے کی پتی گلاب کے لیئے بہت اچھی خوراک ہوتی ہے ۔ چند ہی دنوں میں پودوں پر کلیاں آ گئیں اور گلاب بن کر بہار دکھانے لگیں اور واقعی حیران کن حد تک جس پودے نے پیار بھری سرگوشیاں اور گیت سنے تھے اسکے بڑے بڑے تر و تازہ گلاب مستی میں جھومتے رہتے اور دوسرے پودے کے گلاب سستی اور کسلمندی سے پڑے رہتے ۔ یہاں تک تو چاچا جی کی بات کے ہم قائل ہو گئے اس دوران گھر کے ٹیرس پر ایک دو پودوں کا مزید اضافہ ہو گیا ۔ ان میں ایک منی پلانٹ اور دوسرا ربر پلانٹ تھا اب میری ساری توجہ ان پر ہو گئی گیلے فوم سے ایک ایک پتہ روز چمکاتی اور دًھول مٹی صاف کرتی چند ہفتوں تک منی پلانٹ اتنا پھیل گیا کہ ہر کسی کی نظروں میں آ نے لگا ۔ ٹیرس سے گِرل ، گرل سے جنگلہ اور جنگلے سے سیڑھیوں کا سفر بڑی سرعت سے طے کیااور پورے گھر میں اس بیل کی بہار چھائی رہتی میں ایک دفعہ پھر چاچا جی کی قائل ہو گئی ۔ شادی ہو گئی دیس چھوٹا تو بھیس بھی بدل گیا ذمہ داریاں یکسر بدل گئیں گلاب، منی پلانٹ اور ربر پلانٹ سب پیچھے رہ گئے( اس وقت پودوں کے بارے میں میری دنیا اور معلومات ان تین پودوں تک ہی محدود تھیں ) بہن سے بات ہوتی گپ شپ کے دوران خیال آ نے پر بے خیالی کی سی کیفیت میں اپنے پودوں کا پوچھ لیتی جو میری شادی کے بعد میرے سارے خزانوں کی مالک بھی تھی اور امین بھی ۔ انکے ہرے بھرے ہونے کا سن کر خوش ہو جاتی ۔
اتفاق سے میاں جی کی پوسٹنگ دور دراز علاقے میں ہو گئی ارد گرد کا کھلا رقبہ اور اندر بڑے لان میں گنجائش نے پھر سے پودوں کی طرف دھیان کروایا اور بس جنون ہی چڑھ گیا کہ صحن میں،پورچ میں کیاریوں میں، لان میں پودے ہونے چاہئیں وہ سب کس طرح انتظام میں وہ الگ داستان ہے کبھی تذکرہ رہے گا ۔
پودوں میں کتنی طاقت ہوتی ہے یہ اب صحیح معنوں میں آ شکار ہوا ۔ کیوں کہ میرے گھر کے باہر روڈ کراس کر کے سفیدے کے دو بڑے درختوں نے ( اکثر احباب ان سے شناسا ہیں اور متعدد بار دیکھ چکے ہیں ) میری زندگی ہی بدل دی ۔ میرے اندر باہر کے سارے موسم اور اثرات ان سے منسوب ہیں ۔ دیکھنے میں چپ چاپ بت بنے مانندِ چوکیدار اپنی جگہ پر ایستادہ ہیں مگر کیا کراماتی درخت ہیں مجھے کچھ عرصہ سے لگتا ہے کہ ان درختوں کا کچھ قرض ہے میرے اوپر جو آ گے واضح ہو جائے گا ۔ اب جب کہ ان کو چھوڑ کر جانا پڑ رہا ہے تو وہ سارے محسوسات امڈ امڈ کر آ رہے ہیں جو انکو دیکھتے ہوئے طاری رہے ۔ کتنے ہی مسافر انکی چھاؤں میں سفر کرتے اپنی منزلوں کو پہنچتے ہیں۔ بہت سے راہگیر چلتے چلتے رک کر جوتوں کے کھل جانے والے تسمے باندھتے ہیں کچھ سائیکل سوار ، پیدل اور بائیک والے اچانک آ جانے والی فون کالز اس کی چھاؤں میں کھڑے ہو کر سنتے ہیں پتہ نہیں کتنے رازوں کے امین ہیں کوئی دم بھر سستانے کو کھڑا ہوا پچھلی لائن سے آ تی محترمہ استانی صاحبہ گزرتے ہوئے اکثر شانے کا بیگ لمحہ بھر یہیں رک کر دوسرے شانے پر منتقل کرتی ہیں۔ ہاسپٹل کی ہیڈ نرس یہیں سے پوائنٹ پکڑتی ہیں اور برابر والے کرنل صاحب کا سویئپر ہمیشہ اسی کے ساۓ کوڑے کی ٹوکری الٹ دیتا ہے اور ان کابیٹ مین دوسرے درخت کی چھاؤں کے نیچے ہی نمازِ ظہر ادا کرنا پسند کرتا ہے۔
اونچائی اتنی ہے کہ ہلکی سی ہوا میں بھی جھومنے لگتے اور آ پس میں میٹھی سرگوشیاں کرتے ہیں اور انکی ہلکے سُروں میں کی گئی جذباتی سرگوشیاں مجھ تک پہنچ جاتی ہیں ۔ انکو جھومتا ہوا دیکھنا مجھے اتنا پسند ہے کہ آ ندھیوں کے موسم میں خواتین کو گھریلو چیزیں اڑنے کے ڈر سے سنبھالنے کا خیال ہوتا ہے جبکہ میرے ہاتھ میں صرف کیمرا ۔ اتنی موویز بنا چکی ہوں کہ حد نہیں اور اتنی تصویریں لے چکی ہوں کہ فون گیلری میں بس یہی ہوتی ہیں مگر دل ہے کہ بھرتا نہیں۔ ہوا ذرا تیز ہو تو انکی سر گوشیاں مزید سریلی ہو جاتی ہیں اور ترنگ سنبھالے نہیں سنبھلتی بلکہ ہلکی شرارتیں سرکشی کا روپ دھار لیتی ہیں ایسے ڈولتے پھرتے ہیں کہ سانس رک جاتی ہے ابھی زمین بوس ہو جائیں گے مگر ہواؤں کا شور تھمنے کے بعد ایسے ساکت اور گُپ جیسے بالکل معصوم ہوں یا پھر تھک کر سستا رہے ہوں خاموشی سے ۔ مگر انکی سرمستی اور جھوم جھام میرے اندر بھی ایک سر خوشی اور ترنگ بھر دیتی ہے اکثر سوچتی ہوں کہ نا جانے آ پس میں کیا راز و نیاز کرتے ہوں گے ان ہی سرگوشیوں نے چند نظمیں اُگلوا لیں کچھ غزلیں کہلوا لیں ۔
موسم کی تغیر پذیری کے باعث اگر خاموش ہوں تو لگتا ہے کہ آ پس میں ناراض ہیں اتنے فاصلے پہ کھڑے نظر آتے ہیں کہ دور کا واسطہ بھی نہیں دِکھتا اور جب موسم ہی کی کسی شرارت کے باعث جھومنے لگتے ہیں جوش سے ٹکرا ٹکرا کرملتے ہیں تو پوری فضا میں رنگ ہی رنگ بھر جاتے ہیں انکی شاں شاں کی آ واز مجھے بہت مرغوب ہے مگر اندر کہیں ایک سہم بھی ہوتا ہے کہ ٹوٹ کر گر نا جائیں
اب تو مجھے شک پڑتا ہے کہ ان کو بھی مجھ سے ویسی ہی محبت ہے جیسی کہ مجھے ۔ بہت دنوں سے خاموش کھڑے ہیں میں اکثر چاۓ یا کافی انکے نیچے گِرے بے تحاشہ سوکھے پتوں پر کھڑے ہو کر پینا پسند کرتی ہوں نیچے کی زمین اکثر ٹریکٹر چلنے کی وجہ سے نرم سی رہتی ہے نرم زمین پر پتوں کی چرڑ مرڑ عجیب سی کیفیت طاری کر دیتی ہے اکثر راہ گیر سمجھتے ہیں بی بی پاگل ہے مگر کیا کیجیے کہ پاگلوں کے سر پر سینگ نہیں ہوتے ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جنوری کی کہرائی، دھندلائی ٹھنڈ میں ٹھٹھرتے ،چپ چاپ محسوس ہوتے ہیں۔ جھڑے ، اکڑے ،نم آ لود پتے کسی ہجر کے زیر اثر باقاعدہ آ نسو ٹپ ٹپا رہے ہوتے ہیں ۔ فروری میں انکی اداسی کچھ کم ہوجاتی ہے کبھی ٹھنڈے کبھی گرم ۔ دھندلی شاموں میں لپٹے اداس گم سم ، صبح تک اسی کیفیت مبتلا دکھتے ہیں دوپہر تک خود ساختہ اداسی کو بھول کر نارمل اور معمول کے مطابق دکھائی دیتے رہتے ہیں مگر شام پھر عذاب جاں ہوئی جاتی ہے
مارچ میں رنگ ہی رنگ بھر جاتے ہیں ان پہ ۔ ارد گرد کی رنگین فضا، ڈھیروں خود رو جنگلی سورج مکھیاں ،اور ہمہ قسم پھولوں سے پوری کالونی ڈھک جاتی ہے تو ان کا مزاج بھی الہڑ دوشیزہ جیسا لاپرواہ ہو جاتا ہے ۔ ارد گرد سے ایسے ایسے رنگین اور خوبصورت طائر آ ن بسیرا کرتے ہیں ۔ لال ہرے نیلے پیلے چتکبرے ، موٹے موٹے جنگلی کبوتر اور درختوں کی سب سے اونچی پھننگ پہ کوؤں کی جوڑی جب اٹھکیلیاں کرتی ہے تو اس منظر پر دنیا کی ساری دولت اور مصروفیت قربان کی جا سکتی ہے ۔ اگر قطری شہزادے دیکھ لیں تو شاید ان ہی پرندوں کے شکار پہ اصرار کیا کریں ۔ یوکلپٹس کی یہ ساری تام جھام ،رونق میلہ اور خوبصورتی اپریل میں بھی مارچ ہی کی طرح رہتی ہے ۔
میرے خیال کی وسعت مجھے ان درختوں کی اونچائی سے بھی اوپر لے جاتی ہے جہاں پریاں بسیرا کرتی ہیں بلا شبہ میرے تخیل نے بہت دفعہ مجھے ان پریوں کے پروں کی سرسراہٹ سنائی ہے اور گلابی نازک پیراہن بھی دکھائے ہیں۔
مئی میں انکو دیکھنا الگ اور انوکھا تجربہ ہے جھڑے جھڑائے پتّے ، ٹریکٹر چلنے کے بعد گُودی ہوئی زمین میں مدغم ہو جاتے ہیں ۔صاف ستھرا نرم قطعہ مانندِ ایرانی قالین محسوس ہوتا ہے چلنے سے پاؤں چار چار انچ تک دھنسے جاتے ہیں ہیں نئے پتے بڑی شان اور مضبوطی سے شاخوں کا احاطہ کئے ہوتے ہیں ٹھنڈی صبح ان کے جَلو میں بڑا حسین تاثر دے رہی ہوتی ہے مشرق کی طرف طلوعِ آ فتاب کا منظر اور درختوں کا سانس روک کر ابھرتے سورج کو خوش آ مدید کہنا اور اسکے چِھدرے پتّوں سے ہلکی نرم دھوپ کا اخراج ، کیا منظر ہوتا ہے سبحان اللہ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور چاندنی راتوں کی داستان تو نا ہی پوچھیئے جب چودھویں کا پورا چاند کلابتو بناان دنوں کے بیچ پوری تاب سے چمک رہا ہو تو دل بے اختیار اس منظر میں رچ جانے کو چاہنے لگتا ہے اور اس نظارے کی قیمت کسی دولت سے چکائی نہیں جا سکتی دنیا کی ہر خوبصورتی ہیچ ہے یہاں ۔ ذرا تصّور میں لائیے اونچے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خاموش درخت، گول روپہلا آ لودگی سے پاک انتہائی چمکدار چاند، ہلکی سرسراتی ہوا اور ارد گرد کی مکمل خاموشی اور ایسی خاموشی کہ پتھر بھی بول پڑیں ۔ اگرچہ یہ چاندنی راتیں ہر مہینے ہی نظارے کرواتی ہیں مگر ہر بار انکو دیکھنا نئی خوشی اور الوہی جذبے عطا کرتا ہے ۔ ابھی جس خیال سے آ پ گزرے میری خوش قسمتی کہ میں حقیقت میں اسے دیکھتی ہوں اور خیالوں میں پہنچ جاتی ہوں یہ خوبصورتی صرف لاہوت کی ہی مرہونِ منّت ہے
جون میں موسم کی شِدت اپنے عروج پر ہوتی ہے اور چرند پرند سائے کی تلاش میں ۔ وہ طائرِ خوش الحان جو مارچ،اپریل میں اپنی سریلی ، میٹھی بولیاں بول کر دل موہتے ہیں اور رنگین پر جھاڑ کر انکو بھی رنگینی عطا کرتے ہیں ، دور دیسوں کے مسافر ہوجاتے ہیں اور مقامی پرندے بشمول کوّے چڑیاں طوطے مینائیں اور لالڑیاں اوپری پھنّنگوں پر ڈولتے رہتے ہیں۔
جولائی اگست کی برساتوں میں جب بادل گِھر گِھر آ تے اور چھاجوں مینہ برساتے ہیں یہ الگ ہی ڈھب سے شور اٹھاتے ہیں تب رنگ بھرے بادلوں کی جلترنگ اور یوکلپٹس کی سازشیں اتنی رازداری سے جاری رہتی ہیں اور پورے ماحول کو گرفتار رکھتی ہیں ۔ بھیگتے ، سرسراتے ، لہراتے ، پسِ منظر میں دھلے دھلائے،ابر آ لود سرمئی ،گِھرتے امڈتے بادل اور پیش منظر میں ہرے کچور اونچے لمبے سفیدچمکتے گول سڈول تنوں کے ساتھ ، نیچے بے تحاشہ گِرے گیلے پتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اللہ اللہ۔
ستمبر بھی ایسی ہی ملی جلی کیفیت میں رہتا ہے دو مہینوں کی مسلسل بارشوں نےجو نمی انکی شاخوں ، تنوں اور زمین کو عطا کی تھی اس بوجھ سے بوجھل اور نم نم نظر آ تے ہیں ۔ میری کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں ہوتی ۔ اکتوبر میں اداس اداس دِکھنے لگتے ہیں جیسے گوری کا ساجن بچھڑ گیا ہو اور وہ امید و آ س چھوڑ بیٹھی ہو ۔ اسی گوری کے غم میں برابر کے شریک نِراسے ، کھوئے ہوئے دِکھتے ہیں پچھلے سارے موسموں کا چلبلا پن کہیں کھو جاتا ہے ۔ اخیری اکتوبر کی چلتی ٹھنڈی ہوا میں چپ چاپ پتّے جھاڑے جاتے ہیں جن کو گزرتے مسافر اپنے بھاری بوٹوں تلے روندتے گزرتے ہیں تب انکی چُرڑ مُرڑ مجھے گھر کے اندر تک سنائی دیتی ہے۔
گھر میں بلا مبالغہ سو طرح کے درخت لگے ہیں جن کو میں نے بڑی مشکل سے اور بعض کو دور دراز علاقوں سے منگوا کر اپنے چھوٹے سے باغیچے کی شان بنایا ہے بعض میرے مخلص اور عزیز دوستوں کی مہربانی سے مجھ تک پہنچے ہیں کچھ میں نے بے شرمی کی حد تک جاکر منہ پھاڑ کر مانگ کر اکٹھے کئے ہیں اپنے ہاتھوں سے لگائے ہیں بے تحاشہ پھل اور پھول وصول کیۓ ہیں ایک ایک پتے کو اپنی نظروں میں بڑھایا ہے۔ مگر جو پیار اور محبت پچھلے سات سالوں میں مجھے ان سے ہوئی ہے وہ کسی درخت یا پودے سے نہیں ہو سکی ۔ اگرچہ مجھے اُن سے کوئی پھل پھول یا براہِ راست سایہ بھی میّسر نہیں ۔ مگر انہوں نے اپنی محبت کا جو بیج اور بے اختیاری میرے اندر بھر دی ہے وہ بہت بھاری ہے میری آ ج کی قوتِ گویائی انہی کی عطا کردہ ہے ۔
اور اب سامنے بے مہر دسمبر ہے یا شاید دسمبر کی ہوائیں ہی بڑی بے وفا ہیں کہ وہ پچھلی لائن کی استانی صاحبہ بڑی بے اعتنائی سے سڑک کے دوسری پار چلنا شروع کر دیتی ہیں اور شولڈر بیگ کا شانہ بدلنا بھول جاتی ہیں کرنل صاحب کا سوئیپر ایک منٹ بھی اسکے قریب نہیں جاتا اور ذرا پرلی طرف کھلی دھوپ میں لگے ڈرم میں کوڑا الٹتا ہے اور بیٹ مین بھی گیٹ کے سامنے والے لان میں ڈیرے ڈال لیتا ہے البتہ ہیڈ نرس کو اپنا پوائنٹ اسی سائیڈ سے پکڑنا ہوتا ہے ۔ مجھے سفیدے کی جوڑی کی کُرلاہٹیں صاف سنائی دیتی ہیں انکے بین ، انکے آ نسو ، مگر مجھے ان کو چھوڑنا پڑا انکو چھوڑنے کی بڑی اداسی ہے بہت دکھ ہے مگر خوش آ ئیند بات یہ کہ میرے نئے گھر کے آ گے بھی ویسے ہی سفیدے کے دو درخت موجود ہیں جو محکمہ کی ' درخت اُگاؤ ' پالیسی کے تحت وجود میں آ ئے آ پ بتائیں کیا میں ان سے ویسی ہی محبت کر سکوں گی ؟
زارا مظہر
چشمہ
١٣ دسمبر



